مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صدر محمود عباس اور محمد دحلان کے درمیان جاری الزامات کی جنگ” کمرتوڑ” شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے، فلسطینی رہ نماؤں کے قتل میں ملوث ہونے اور قومی خزانے کی لوٹ مار کے الزامات عائد کیے ہیں۔
الزامات کی تازہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب صدر محمود عباس نے پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کئی اہم فلسطینی رہ نماؤں کے قتل میں منحرف لیڈر دحلان ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دحلان سابق فلسطینی لیجنڈ لیڈر یاسرعرفات کے قتل میں ملوث ہونے کے علاوہ حماس رہ نما صلاح شحادہ کو شہید کرنے میں بھی ملوث ہے۔ یہ دحلان ہی ہے جس نے سابق صدارتی مشیر خالد اسلام اور مذاکرات کار و سابق وزیرحسن عصفور پر حملہ کیا اور ان پر اسرائیل کےلیے جاسوسی کے الزامات عائد کیے گئے۔
پیر کے روز صدر محمود عباس نے فتح کی انقلابی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کی سینٹرل کونسل کے ممبر عزام الاحمد کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ فلسطین کے چھ اہم قائدین میں براہ راست ملوث ہیں۔
محمود عباس نے مزید کہا کہ سنہ 2002ء میں حماس رہ نماء صلاح شحادہ کی قاتلانہ حملے میں شہادت میں دحلان ملوث رہا ہے۔
صدرعباس نے کہا کہ وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ دحلان نے ایک خفیہ جاسوس سیل قائم کر رکھا تھا، جس کے عناصر جزیرہ نما سینا میں تھے۔ یہ خفیہ سیل حماس اور لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے بارے میں اسرائیل کو مخبری کرتا رہا ہے۔ اس گروپ کو براہ راست دحلان کی جانب سے ہدایات دی جاتی رہی ہیں۔
صدرعباس نے کہا کہ دحلان نے اندرون اور بیرون ملک کی قیادت سے مل کر فلسطینی اتھارٹی کا تختہ الٹنے کی بھی منصوبہ بندی کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ دحلان نے سنہ 2002ء میں مصر کے سابق انٹیلی جنس چیف نے فتح کی سینٹرل سیکیورٹی چیف جبریل رجوب کو بتایا کہ انہیں دحلان نے چائے کی دعوت دی تھی۔ اس کےعلاوہ دحلان نے اسرائیلی جیلوں میں قید فتحاوی رہ نما مروان البرغوثی ، خالد اسلام اور جبریل الرجوب سے ملاقات کر کے انہیں فلسطینی اتھارٹی کا تختہ الٹنے کی تجویز دی تھی لیکن انہوں نے اس پرعمل درآمد سے انکار کر دیا تھا۔ صدرعباس کا کہنا تھا کہ ان تمام شواہد کے بعد میرے سامنے سابق لیڈر یاسرعرفات کو زہر دے کر مارے جانےکا سوال پیدا ہو رہا ہے۔ اب یہ آشکار ہو گیا ہے کہ یاسرعرفات کے قتل میں دحلان ہی ملوث ہے۔ جب فلسطینی لیڈر اسپتال میں تھے تو ان کے پاس آخری وقت دحلان ہی آیا تھا جس نے ان کا ہاتھ چوما اور اس بہانے سے انہیں زہرسونگھا دی تھی۔
جواب آں غزل
دوسری جانب فتح کے منحرف لیڈر محمد دحلان نے نہ صرف صدر عباس کے الزامات مسترد کر دیے ہیں بلکہ الٹا انہیں سابق لیڈر یاسرعرفات کے قتل میں مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ”فیس بک” پر پوسٹ کردہ ایک بیان میں دحلان کا کہنا ہے کہ وہ جلد انکشاف کریں گے کہ فلسطینی اتھارٹی میں سے کون کون فرشتہ صفت ایسے ہیں جو یاسرعرفات کے قتل میں براہ راست ملوث ہیں۔ ان کا اشارہ صدر عباس کی جانب تھا کیونکہ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی موجودہ سربراہ قیادت ہی یاسرعرفات کے قتل میں ملوث ہے۔
دحلان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ محمود عباس کے تمام الزامات الف سے "ی” تک جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ وہ جلد میڈیا میں آ کر صدرعباس کے پول کھولیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سابق فلسطینی رہنما یاسرعرفات نے محمود عباس کے آمرانہ اقدامات پر انہیں”فلسطین کا کرزئی” قرار دیا تھا۔
دحلان کی ترجمان سمجھی جانے والی نیوز ویب ساٰئیٹ "کوفیہ پریس” کی نے ایک ویڈیو ٹیپ بھی اپ لوڈ کی ہے جس میں دحلان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ حماس رہ نما صلاح شحادہ کے قتل میں ہرگزملوث نہیں ہیں۔ اس کےعلاوہ انہوں نے اس ویڈیو فوٹیج میں فتح کے رہ نماؤں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتےہوئے کہا کہ جو لوگ محمود عباس کے ارد گرد جمع ہیں انہیں صرف دال روٹی کی فکر ہے۔ دحلان کا کہنا ہے کہ میں اسرائیل کا ایجنٹ ہوں اور نہ ہی حماس رہ نما صلاح شحادہ کی شہادت میں میرا کوئی کردار ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ فتح کی موجودہ قیادت لالچی اور عہدوں کی حریص ہے۔ یہ لوگ صرف تنخواہوں کے لیے صدرعباس سے چمٹے ہوئے ہیں۔ میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ رزق بندوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ دحلان نے محمود عباس کو "جھوٹ کا چلتا پھرتا نمونہ”قرار دیا۔