فلسطینی محاصرہ زدہ ساحلی شہرگذشتہ پانچ سال سے اسرائیل کی سخت ترین پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے۔غزہ کی پٹی کی معاشی ناکہ بندی میں پڑوسی ملک مصرکی سابق حکومت بھی کسی حد تک ملوث رہی تھی،
کیونکہ سابق مصری صدر حسنی مبارک نے غزہ کی پٹی میں حکمراں جماعت اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کی حکومت کے ساتھ ایک حد تک "معاندانہ” رویہ اپنائے رکھا تھا۔ گذشتہ برس پچیس جنوری کو برپا ہونے والےا نقلاب کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ مصر کی نئی حکومت غزہ کے ڈیڑھ ملین لوگوں پر سے معاشی پابندی ختم کرانے میں ٹھوس کردار ادا کرے گی۔ مصری حکومت نے کسی حد تک فلسطینیوں کو سہولیات فراہم کی ہیں، تاہم شہرمیں توانائی کا بحران کئی ماہ سے مسلسل منہ کھولے کھڑا ہے۔
دو ماہ قبل خلیجی ممالک قطر، کویت، متحدہ امارات اور دیگر ریاستوں نے حماس کے وزیراعظم اسماعیل ھنیہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ غزہ کی پٹی کو توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تیل فراہم کریں گے۔ غزہ کی پٹی کو تیل کی فراہمی یا تو اسرائیل کے زیرتسلط فلسطینی شہروں سے ممکن ہے یا مصر کے راستے فراہم کی جاسکتی ہے۔ اسرائیل کی طرف سے پابندیوں کے باعث غزہ کو بیرون ملک سے کسی قسم کی اشیاء فراہم نہیں کی جا رہی ہیں، جبکہ مصری حکومت بے بھی کویت اور قطر کے آئیل ٹینکروں کو غزہ جانے میں ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر رکھا ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ کی پٹی میں حکمراں جماعت حماس کی توانائی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ قاہرہ میں قطرکی جانب سے بھیجے گئے کئی آئل ٹینکرز کئی ہفتوں سے کھڑے ہیں، لیکن مصری حکومت ان آئل ٹرکوں کو غزہ کی پٹی میں داخلے کی اجازت دینے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔
فلسطینی انتظامیہ کا کہنا ہےکہ شہر میں پٹرول اورڈیزل سمیت دیگر پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قلت سے توانائی کا بحران ایک مرتبہ پھر سے شدت اختیار کر گیا ہے۔ قطر سے آئے تیل سے لدے کئی بحری جہاز مصر کی سویز بندرگاہ پر کھڑے ہیں، مصری حکومت کی طرف سے اس تیل کو غزہ کی پٹی میں لانے کے لیے ٹینکرز فراہم نہیں کیے جا رہے ہیں۔ فلسطیبنی حکام کا کہنا ہے کہ وہ جب بھی قاہرہ حکام سے اس سلسلے میں کوئی بات چیت کرتے ہیں تو انہیں کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا جاتا۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین