یاد رہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا مزار اوسلو معاہدے کے تحت کی جانے والی علاقائی درجہ بندی کے تحت A زون میں آتا ہے جہاں انتظامی لحاظ سے فلسطینی مقتدرہ کو سیکیورٹی کنڑول حاصل ہو گا۔
اسرائیل کے چینل سیون نے اپنی ویب سائٹ پر ایک خبر دی ہے کہ مشرقی نابلس میں حضرت یوسف علیہ السلام کے مزار پر یہودی آبادکاروں کی اجتماعی ہلڑ بازی کے بعد السامرہ یہودی کالونیوں کی علاقائی کونسل کے سربراہ گرشون مسیکا نے اسرائیلی حکومت سے سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزار کی زمین پر قبضہ کر لے۔
میسکا نے کہا کہ آج اس بات پر تقریبا اجماع ہو گیا ہے کہ مزار یوسف علیہ السلام والے علاقے پر اسرائیل اپنا انتظامی کنڑول قائم کرے کیونکہ اوسلو معاہدے میں بھی یہ امر طے پایا تھا کہ مزار کا علاقہ اسرائیلی تصرف میں رہے گا لیکن بدقسمتی سے اسرائیل نے سنہ 2000ء میں اس علاقے کا کنڑول چھوڑ دیا۔
مسیکا نے مطالبہ کیا کہ یہودی مزار یوسف علیہ السلام پر روزانہ حملے کریں۔ "آج یہودی مزار والے علاقے کا دورہ کرنے کا انتظام کر رہے ہیں لیکن آبادکاروں کو اجازت کے حصول کے لئے ڈیڑھ برس انتظار کرنا پڑا۔”
قابض حکام کا دعوی ہے کہ مشرقی نابلس میں موجود قبر حضرت یوسف علیہ السلام کی ہے جبکہ فلسطینی محققین اور اہالیاں علاقہ کے مطابق یہ جگہ مزار کے قریبی قصبے بلاطہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان یوسف دویکات کی ہے اور یہ علاقہ اسلامی اوقاف سرکل کے ریکارڈ میں اسلامی تاریخی ورثے کے طور پر رجسٹر ہے۔
قبر یوسف سنہ 1967ء کے بعد نابلس پر اسرائیلی قبضے کے وقت سے کشیدگی کا عنوان بنا ہوا ہے۔ اس وقت تک یہاں مسجد موجود تھی لیکن اسرائیلی قبضے کے اس کی تالا بندی کر کے اسے یہودی مقدس مقام بنا دیا گیا۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین