عمان – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی قوم ہونہارسپوتوں کی قوم ہے۔ ایک ایسی قوم جو گذشتہ ربع صدی سے ایک غاصب صہیونی ریاست کی استبدادیت کا شکار ہے مگر جبرو ستم فلسطینی قوم جوانوں نے علم و ہنرکے میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔
کئی فلسطینی نوجوان ماہر تعلیم جدید تعلیم اور سائنس کے شعبوں میں اپنی تحقیقی وتخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ انہی میں ایک چمکتا ستارہ ’پروفیسر علی حسن نایفہ‘ کا بھی تھا جو گذشتہ دنوں 83 سال کی عمرمیں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔پروفیسر علی حسن نایفہ کا شمار فلسطین کے ممتاز ماہرتعلیم،دانشوروں اور سائنسدانوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے میکینیکل انجینیرنگ میں اپنی مہارت کا ایسا لوہا منوایا کہ دنیا ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے لگی۔ سنہ 2014ء میں علی نایفہ کو مکینیکل انجینیرنگ کے شعبے میں ناقابل یقین کارنامے انجام دینے کے صلے میں سائنسی میدان میں نوبیل انعام کے مساوی’بنجمن فرینکلین‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
اس کےعلاوہ فزکس میں البرٹ آئن سٹائن ایوارڈ،سنہ 2005ء میں امریکا کی انجینیرنگ آرگنائزیشن کی طرف سے ‘لیپانوف‘ اور 2007ء میں سائنسی میدان میں خدمات انجام دینے پرانہیں گولڈ میڈل دیا گیا۔
فلسطینی سائنسدان پروفیسر علی حسن نایفہ گذشتہ دنوں چند روزہ علالت کے بعد اردن کے صدر مقام عمان میں 83 سال کی عمرمیں انتقال کرگئے تھے۔ ان کے انتقال سے فلسطینی قوم بالخصوص اور مسلم امہ بالعموم ایک قابل اور با صلاحیت سائنسدان سے محروم ہوگئی۔
مرحوم پروفیسر نایفہ کا شمار مکینیکل انجینیرنگ میں عالمی سطح کے ماہرین میں ہوتا تھا۔ انہوں نے کئی سال تک امریکا میں اپنی تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے ساتھ وہاں پر تدریس کے فرائض انجام دیے۔ امریکا میں طویل عرصہ گذارنے کے بعد چند برس قبل وہ اردن کے دارالحکومت عمان منتقل ہوئے جہاں انہوں نے رضاکارانہ طور پر اردن یونیورسٹی کو اپنی خدمات پیش کیں۔ ان سے مستفید ہونے والے ماہرین اور طلباء کی بڑی تعداد عرب دنیا اور دوسرے ممالک میں پھیلی ہوئی ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پروفیسر علی حسن نایفہ سنہ 1930ء کے عشرے میں غرب اردن کے شمالی شہر طولکرم میں شویکہ کے مقام پر پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے کے ایک پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان طولکرم کے ایک ہائی اسکول سے پاس کیا۔
انٹرمیڈیٹ کے بعد انہوں نے اردن کے اسکولوں میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دوران امریکا کی ایک این جی او نے انہیں بیرون امریکا میں تعلیم دلوانے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے امریکا کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے پہلے ایم ایسی سی اور پھرڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ یہ سارا کورس انہوں نے صرف ساڑھے چار سال میں مکمل کرلیا۔ اس کے بعد ان کی نگرانی میں انجینیرنگ، فزکس، ریاض اور دیگر شعبوں میں 98 طلباء و طالبات نے اپنی تحقیقات مکمل کیں۔ مرحوم نے مکینیکل انجینیرنگ میں کئی کتابیں بھی تالیف کیں۔
انہوں نے سنہ 1976ء میں امریکا کی ورجینیا یونیورسٹی میں ٹیکنالونی کے پروفیسر کے طور خدمات انجام دیں۔
اردن واپسی کے بعد انہوں نے جامعہ یرموک میں انجینیرنگ کالج کی بنیاد رکھی اور خود اس کے ڈین مقرر ہوئے۔
انہوں نے سائنس اور انجینیرنگ کے میدان میں 655 مقالے پیش کئے اور انجینیرنگ اور سائنس کے Â شعبے کی 17 کانفرنسوں کی خود نگرانی کی۔ انہیں روس، پولینڈ اور جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی تین ڈگریاں بھی جاری کی گئیں۔
مرحوم کی علمی خدمات میں دو سائنسی جریدے’ڈائنامیٹ‘ اور ’وائبریشن اینڈ کنٹرول‘ بھی شامل ہیں۔ امریکا میں قیام کے دوران انہوں نے’وائلی اینڈ سنز‘ نامی اشاعتی ادارے کے لیے کئی سائنسی کتب بھی تحریر کیں، امریکا اور دوسرے ملکوں میں کئی سائنسی انجمنوں کی رکنیت بھی اختیار کی۔
عرب ممالک کی جامعات مں قائم ہونے والے سائنسی شعبوں میں بھی پروفیسر حسن نایف کی خدمات شامل ہیں۔ انہوں نے سنہ 1976ء میں جدہ میں شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ امریکا میں 35 رکنی انجینیرنگ ٹیم کی قیادت کی جن میں امریکا کی MIT یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی، اسٹان فورڈ یونیورسٹی، بیرکلے یونیورسٹی اور ورجینیا ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے اساتذہ شامل تھے۔
انہوں نے تیونس میں مکینیکل پروگرام کی بنیاد رکھی اور اس کے معاونین میں شامل رہے۔ اس کے علاوہ ترکی، اردن، مصر اور تیونس میں کئی دیگرعلمی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے امریکا کی دو فضائی کمپنیوں میں مسلسل سات سال تک کام کیا۔ اس دوران انہوں نے ریاضی، فزکس اور مکینیکل انجینیرنگ کے انتہائی پیچیدہ مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔