رام اللہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیل کے شہر لُد کی مرکزی عدالت نے 2015ء میں دوما کے گاؤں میں فلسطینی دوابشہ خاندان کے قاتلوں کے بنیادی اعترافات کا ایک حصّہ کالعدم کر دیا ہے۔ عدالت کا مؤقف ہے کہ اعترافی بیان کا مذکورہ حصّہ تشدد کے بل بوتے پر زبردستی لیا گیا۔ عدالت نے بیان کے بقیہ حصّے کو قابل قبول قرار دیا۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی مرکزی عدالت نے مرکزی ملزم عمیرام بن الوئیل اور جرم میں ملوث ایک کم عمر یہودی کے بنیادی اعترافات کو ختم کر دیا۔تین برس قبل اپنے گھر میں شوہر اور بچوں سمیت شدت پسند صیہونی آباد کاروں کے ہاتھوں زندہ جلائی جانے والی فلسطینی خاتون کے والد حسین دوابشہ نے بتایا کہ "اسرائیلی عدالتوں نے دُہرا معیار اپنا رکھا ہے۔ تشدد کے ذریعے فلسطینی قیدیوں سے حاصل ہونے والے بیانات پر اعتماد کیا جاتا ہے جب کہ وہ ہی عدالت شدت پسند صیہونیوں کے اعترافی بیانات کو اس حیلے کے ساتھ مسترد کر دیتی ہے کہ یہ یہ بیان غیر قانونی طریقوں سے حاصل کیے گئے ہیں۔
آٹھ سالہ احمد جلائے جانے والے فلسطینی دوابشہ خاندان کا واحد بچ جانے والا فرد اور اس بھیانک جرم کا اکلوتا گواہ ہے۔ اس نے گفتگو کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے میرے ماں باپ لوٹا دو”۔ یہ بول کر احمد اپنے دادا حسین دوابشہ کے گھر کے سامنے کھیل کود میں لگ گیا۔
شدت پسند صیہونی آباد کاروں کا ایک گروپ لُد میں عدالت کے آگے جمع ہوا اور اس نے دوابشہ خاندان کے سامنے اس بہیمانہ کارروائی پر فخر کا اظہار اور رقص بھی کیا۔
تین برس قبل شدت پسند صیہونی آباد کاروں نے مغربی کنارے میں نابلس کے گاؤں دوما میں ایک فلسطینی گھرانے کے گھر کو آگ لگا دی تھی۔ اس واقعے کے نتیجے میں 18 ماہ کا بچہ علی فوت ہو گیا جب کہ اس کے والدین اور بھائی احمد (5 سالہ) شدید زخمی ہو گیا۔ بعد ازاں خاندان کا سربراہ سعد دوابشہ اور اس کی بیوی ریہام دوابشہ بھی زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔