مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کے خلاف قرارداد چودہ ووٹوں سے منظور کر لی ہے جس کا فلسطینی حکام نے خیر مقدم کیا ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس قرارداد میں اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ مشرقی بیت القدس سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ فوری طور پر بند کر دے۔سلامتی کے کونسل کے تمام ملکوں نے صیہونی بستیوں کی تعمیر کے خلاف پیش کی جانے والی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تاہم امریکہ نے اسے ویٹو کرنے کے بجائے رائے شماری میں حصہ لینے سے گریز کیا۔
اقوام متحدہ میں فلسطین کے مستقل مندوب ریاض منصور نے سلامتی کونسل کی قرارداد کو مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب ایک ضروری قدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام اسی صورت میں معنی خیز ثابت ہو گا جب اس کے نتیجے میں اسرائیلی قبضے کا خاتمہ اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام حتمی شکل میں سامنے آ سکے۔
فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے سلامتی کونسل کے اس اقدام کو مثبت اور اسرائیل پر کاری سیاسی ضرب قرار دیا ہے۔
اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے بھی سلامتی کونسل کی قرارداد کو مثبت اور بیش قیمت قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے منصفانہ موقف اپنانے کا سلسلہ جاری رکھے۔
ادھر اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل مندوب نے سلامتی کونسل میں اسرائیل مخالف قرارداد کو ویٹو نہ کرنے پر امریکہ پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ اسرائیل کے نمائندے ڈینی ڈینن نے غصے کے عالم میں کہا کہ امریکہ نے مشرق وسطی میں اپنے اہم ترین اتحادی کو اقوام متحدہ میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔
صیہونی حکومت کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاھو نے بڑی بے شرمی کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کی اس قرارداد پر بھی عمل نہیں کرے گا۔
صیہونی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں امریکہ کے نیوٹرل ووٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیل نومنتخب امریکی صدر اور کانگریس میں اپنے اتحادیوں کے تعاون سے سلامتی کونسل کی قرارداد کو غیرموثر بنا دے گا۔
اگرچہ سلامتی کونسل کی یہ قرارداد لازم الاجرا نہیں ہے تاہم سیاسی لحاظ سے صیہونی حکام کے لیے واضح پیغام کی حامل ہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ اس حد تک غیرقانونی اور غیرمنصفانہ ہے کہ اس بار اس کا اہم ترین اتحادی یعنی امریکہ بھی عالمی برادری کی متفقہ رائے کی مخالفت نہ کر سکا اور اس نے رائے شماری میں حصہ نہ لیکر اپنی ساکھ بچانے کی کوشش کی ہے۔
البتہ بعض تجزیہ نگار امریکہ کے نیوٹرل ووٹ کو اوباما انتظامیہ اور صیہونی حکومت کے وزیراعظم کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں تاہم بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ کی جانب سے اپنی مدت کے آخری دنوں میں کئے جانے والے اس اقدام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
چند روز کے بعد امریکہ میں نئی حکومت برسر اقتدار آنے والی ہے اور نومنتخب امریکی صدر، اسرائیل اور صیہونی بستیوں کے سب سے بڑے حامی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قرارداد کو خاطر میں لانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کریں۔