فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے ’’سمیتھ انسٹیٹیوٹ‘‘ نامی ایک تھینک ٹینک کے زیراہتمام کیے گئے سروے میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی مزاحمتی کارروائیوں کے باعث 57 فی صد یہودی بیت المقدس میں داخلے سے محروم رہے ہیں۔
سروے جائزے میں شامل ہونے والے 73 فی صد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ وہ اسی صورت میں سکون اورامن کے ساتھ زندگی گذار سکتے ہیں جب فلسطینی اور اسرائیلی کالونیوں کو ایک دوسرے سے الگ الگ کردیا جائے۔ یہودی کالونیوں تک فلسطینیوں کی رسائی روک دی جائے، ورنہ یہودی آباد کار اپنے مستقبل کے حوالے سے خوف کا شکار رہیں گے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی تھینک ٹینک نے مجموعی طورپر مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والے 500 افراد سے ان کی رائے معلوم کی۔ وہ سب اپنے اپنے مستقبل کے حوالے سے خوف زدہ دکھائی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حالات اسی طرح برقرار رہتے ہیں اور فلسطینیوں کی مزاحمتی کارروائیاں جاری رہتی ہیں تواسرائیلیوں کے خوف میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
سروے جائزے میں حصہ لینے والے یہودی آباد کاروں کا کہنا ہے کہ صہیونی خواتین بیت المقدس میں داخلے کے حوالے سے مردوں سےزیادہ خوف زدہ ہیں۔ 94 فی صد خواتین نے جب کہ 49 فی صد مردوں نےبیت المقدس میں داخلے پرخوف کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیل کی مذہبی شدت پسند سیاسی جماعت ’’اسرائیل بیتنا‘‘ اور اس کے سربراہ آوی گیڈور لائبرمین کے حامی 85 فی صد یہودیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک سے زائد بار بیت المقدس جانے کا پروگرام ملتوی کیا جب کہ ’میریٹز‘ کے 41 فی صد حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ بیت المقدس جانے سےگریزاں ہیں۔
خیال رہے کہ فلسطین میں گذشتہ برس اکتوبر کے بعد سے جاری تحریک انتفاضہ کے دوران اسرائیلی فوج کی دہشت گردی کے نتیجے میں 218 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جب کہ فلسطینیوں کی انفرادی مزاحمتی کارروائیوں میں 30 یہودی ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔