رام اللہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیلی ریاست کے بدنام زمانہ عقوبت خانوں میں پابند سلاسل فلسطینی اسیر انجینیر ضرار ابو سیسی کی جبری اسیری کو سات سال مکمل ہوگئے ہیں جس کے بعد وہ اب آٹھویں سال میں داخل ہوگئے ہیں۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق انہیں صیہونی ریاست کے سفاک اور بدنام خفیہ ادارے’موساد‘ کے ایجنٹ ایک سازش کے تحت 18 فروری 2011ء کو یوکرائن سے اغواء کرکے اسرائیل لائے جہاں انہیں لرزہ خیز اذیتیں دی گئیں۔ دوران حراست انہیں بدترین جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد کیا گیا۔ کئی کئی ہفتے انہیں بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ ان پر سردی میں ٹھنڈہ پانی پھینکا جاتاÂ اور تشدد کے دیگر بدترین حربے آزمائے جاتے جن میں بجلی کے کرنٹ لگانے اور طویل مدت تک جگائے رکھنے کے اذیتی ہتھکنڈے بھی شامل ہیں۔ضرار ابو سیسی کو اغواء کے بعد اسرائیل لایا گیا جہاں اسے مسلسل ایسے زنداں میں ڈالا گیا جہاں اس سورج کی کرن تک نہیں پہنچتی۔ آج سے آٹھ سال پہلے والے ابو سیسی اورآج کے ابو سیسی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اذیت مسلسل کے 8 سال میں انہیں نیم مردہ کردیا ہے اور ان کی تازہ تصویر سے ان کی پہچان تک نہیں کی جاتی۔
ذرائع سے ملنے والی معلومات سے پتا چلا ہے کہ ابو سیسی اس وقت ’عسقلان‘ نامی عقوبت خانے کی کسی کال کوٹھڑی میں قید ہے۔
ضرار ابو سیسی کی یوکرائن میں خفیہ گم شدگی اور اس کے بعد صیہونی زندان میں موجودگی کے واقعات کسی خوفناک ’فلم اسٹوری‘ سے کم نہیں۔ ان کی یوکرائنی نژاد اہلیہ کے بیانات بھی انتہائی لرزہ خیز ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ ابو سیسی کو اسرائیلی موساد نے یوکرائن سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اغواء کرکے اسرائیل لایا گیا۔
ضرار ابو سیسی 1969ء کو فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایک فلسطینی نژاد یوکرائنی خاتون سے شادی کی جس سے ان کے چھ بچے بچیاں ہیں۔ وہ 1988ء کو الیکٹریکل انجینیرنگ کے لیے یوکرائن گئے جہاں الیکٹریکل نیٹ ورک کے شعبے میں پی ایچ ڈی کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کےبعد وہ غزہ واپس آگئے جہاں انہوں نے غزہ کی پٹی مین الیکٹریکل پاور اسٹیشن میں بہ طور ڈائریکٹرآپریشن کام شروع کیا۔ اس کے علاوہ ساتھ ساتھ انہوں نے درس و تدریس کا کام بھی شروع کردیا اور القدس اوپن یونیورسٹی کے لیکچرار مقرر ہوئے۔
غزہ کی پٹی میں پندرہ سال قیام کے بعد ضرار ابو سیسی اپنی اہلیہ اور بچوں سے ملنے یوکرائن چلے گئے جہاں 18 فروری 2011ء کو وہ پراسرار طور پر لاپتا ہوگئے۔ آج ان کے جبری اغواء کو سات سال مکمل ہونے کے بعد وہ آٹھویں سال میں داخل ہوگئے ہیں۔