مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی سیاست اور عالمی امور پر گہری بصیرت رکھنے والے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی پیش کی گئی قرارداد کو عالمی اوباش اسرائیل کے حق میں استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں سے سیاسی بلیک میلنگ کی سازش کرسکتے ہیں اور فلسطینی اتھارٹی پر ایک ایسا حل تھوپ سکتے ہیں جس میں فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق اور مطالبات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔
فلسطین کے مختلف مبصرین نے سلامتی کونسل میں جمع کیے گئے قرارداد کے مسودے پر ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری فلسطینیوں کے دیرینہ مطالبات اور بنیادی حقوق کو تسلیم کرچکی ہے لیکن سلامتی کونسل میں جو قراراداد پیش کی گئی ہے اس میں فلسطینی قوم کے بنیادی مطالبات سے انحراف کیا گیا ہے۔ یہ قرارداد مسئلہ فلسطین کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے کیونکہ اس میں فلسطینی قوم کے دیرینہ مطالبات کو نظر انداز کرتےہوئے ایسا حل قبول کرنے کے اشارے دیے گئے ہیں جو اسرائیل کے حق میں ہیں لیکن ان کا فلسطینی قوم کے مطالبات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کا آمرانہ فیصلہ
فلسطینی تجزیہ نگار ھانی المصری نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کی آڑ میں جو کچھ ہوا ہے وہ نہایت خطرناک ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے قرارداد کے مسودے کی تیاری میں کسی فلسطینی تنظیم یا نمائندہ شخصیت سے مشورہ تک نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کی تمام جماعتوں حتیٰ کہ حکمران جماعت الفتح کی بیشتر قیادت نے بھی اسے مسترد کردیا ہے۔ یہ قرارداد فلسطینی اتھارٹی کے ایک مخصوص حلقے نے تیار کی ہے حتیٰ کہ اسے تنظیم آزادی فلسطین کے فورم کے سامنے بھی پیش نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ قرارداد کے مسودے پر محض روایتی تنقید نہیں کی جا رہی ہے۔ اگر فتح کی قیادت بھی اس سے مطمئن نہیں تو بات قابل غور ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اس قرارداد میں ترمیم قبول کرتے ہوئے فلسطینی قوم کے مزید حقوق سے دستبردار ہوجائے گی۔
سیاسی بلیک میلنگ
فلسطینی تجزیہ نگار ھانی المصری کا کہنا ہے کہ امریکا نے دو ٹوک الفاظ میں اپنا روایتی موقف دہرایا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس قرارداد کو اسرائیل کی مخالفت میں منظور نہیں ہونے دے گا تاہم قرارداد کے مسودے میں ترمیم کے بعد کےبارے میں امریکی موقف بھی واضح نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکا فلسطینی اتھارٹی سے مزید پسپائی کی توقع رکھتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ فلسطینی قوم کے مسلمہ اور دیرینہ حقوق کو دانستہ نقصان پہنچانے کی کوشش ہوگی۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ فلسطینی اتھارٹی سلامتی کونسل میں جمع کی گئی قرارداد فوری طورپر واپس لے۔ امریکا اور اسرائیل سمیت کسی بھی ملک کے مطالبے پر قوم کے دیرینہ حقوق اور مطالبات پر مزید پسپائی اختیار نہ کی جائے۔
ایک دوسرے تجزیہ نگار احمد رفیق عوض نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر فلسطینی اتھارٹی کی پیش کی گئی قرارداد میں مزید ترمیم ہوتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس صورت میں امریکا بھی اس قرارداد کی حمایت کرے کیونکہ امریکی ایک ایسی قرارداد چاہتے ہیں جس میں فلسطینی قوم کے مطالبات اور حقوق کے بجائے صہیونی ریاست کی سلامتی کی زیادہ بات کی گئی ہو۔ ایک ایسی مبہم قرارداد جس میں فلسطینی قوم کے دیرینہ مطالبات کو نظر انداز کیا گیا ہو وہ امریکا اور اسرائیل دونوں کے لیے قابل قبول ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں احمد عوض کا کہنا تھا کہ امریکا اور اسرائیل فلسطینی اتھارٹی پر سلامتی کونسل میں جمع کرائی گئی قرارداد میں جوہری تبدیلیاں لانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ مطالبہ فلسطینیوں کو سیاسی طورپر بلیک میل کرنے کی سازش ہے۔ یہ اس لیے بھی کیا جا رہا ہے تاکہ فلسطینی عالمی عدالت انصاف سے رجوع نہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ قرارداد میں ایسے شرائط شامل کی جا رہی ہیں جن سے اسرائیل کو فائدہ اور فلسطینی قوم کو بھاری نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی بلیک میلنگ کا تجربہ فلسطینی قوم کو بار بار ہوچکا ہے۔ ایک سال قبل جب اقوام متحدہ میں فلسطینی مملکت کو مبصر رکن کا درجہ دیا گیا تو اس وقت بھی امریکیوں نے فلسطینیوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی تھی۔ فلسطینی اتھارٹی کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر اس نے اقوام متحدہ سے رجوع کا فیصلہ واپس نہ لیا تو اس کی ساری امداد بند کی جاسکتی ہے۔ اسرائیل کی خوشنودی کے لیے اب کی بار بھی ایسا ہوسکتا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین