فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شہید فلسطینی محمد ابو خضیرکے اہل خانہ نے کہا ہے کہ انہیں صہیونی ریاست کی عدالتوں کی طرف سے بچے کے وحشیانہ قتل پرانصاف نہیں ملا جس کے بعد وہ مجبورا عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلانے کی تیاری کررہے ہیں۔
خیال رہے کہ ایک سال قبل فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی دہشت گردوں نے نماز فجر کے وقت 13 سالہ فلسطینی بچے کو اغواء کے بعد ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا اور ایک ویران مقام پرلے جا کر اسے آگ لگا کر شہید کردیا تھا۔ بعد ازاں اسرائیلی پولیس نے فلسطینی بچے کے وحشیانہ قتل میں ملوث دہشت گرد گرفتار کرلیے تھے مگرصہیونی عدالتوں کی طرف سے قاتلوں کو قرار واقعی سزا نہیں دی گئی۔
شہید فلسطینی بچے کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی عدالت کو درخواست دی تھی کہ وہ ان کے بچے کے قاتلوں کے مکانات مسمار کرنے کا حکم دے مگر صہیونی سپریم کورٹ کی طرف سے ان کی درخواست مسترد کردی گئی ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی سپریم کورٹ کی طرف سے یہودی آباد کاروں کے قتل میں ملوث فلسطینیوں کے مکانات مسمار کرنے کا واضح حکم موجود ہے۔ مگر اسرائیلی عدلیہ یہودی دہشت گردوں کے معاملے میں امتیازی سلوک کا مظاہرہ کررہی ہے۔
شہید فلسطینی بچے کے والد حسین ابو خضیر کا کہنا ہے کہ انہوں نے صہیونی عدالت کی طرف سے درخواست مسترد کیے جانے کے بعد دوبارہ درخواست دی ہے۔ اگر یہودی دہشت گردوں کے مکانات مسمار کیے جانے کی درخواست مسترد کردی گئی تو وہ عالمی فوج داری عدالت سے رجوع پرمجبور ہوں گے۔ حسین ابو خضیر کا کہنا تھا کہ وہ قانونی ماہرین سے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کے حوالے سے صلاح مشورہ کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ محمد ابو خضیر کے قتل میں ملوث تین یہودی دہشت گردوں کو عمر قید کی سز ہوچکی ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ فلسطینی بچے کے قاتلوں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کیاجا رہا ہے اور انہیں بچانے کی مہم جاری ہے۔
