مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق سویڈن کی جانب سے یہ اقدام ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اسٹاک ہوم کے دورے پر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسٹاک ہوم کی جانب سے اپنے ہاں فلسطینی نمائندگی کو سفارت کا درجہ دینا فلسطینی قوم کے منصفانہ حقوق کو تسلیم کرنے کی عمدہ مثال ہے۔
اسٹاک ہوم میں سویڈیشن وزیراعظم اسٹیفن لوفین کے ہمراہ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر محمود عباس نے کہا کہ سویڈش حکومت کی جانب سے فلسطینی سفارتی درجے میں اضافہ اور اسے باقاعدہ سفارت خانے کا درجہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ سویڈن کا فلسطینی قوم کے حقوق اور آزادی کے حوالے سے سیاسی، اخلاقی، سفارتی موقف نہایت متوازن اور عادلانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ سویڈن کے بعد دیگر یورپی ممالک کی حکومتیں بھی اسٹاک ہوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا کھل کر اعلان کریں گی۔
ایک سوال کے جواب میں صدر محمود عباس نے کہا کہ سویڈن کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو ایک مبصر رکن کا درجہ ملنا ہماری ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ اس کے بعد فلسطین، اسرائیل امن مذاکرات کو مزید آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔
صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ گذشتہ برس کے آخر میں ہم نے عالمی سلامتی کونسل میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کی قرارداد نہایت مخلصانہ اور مبنی برحق جذبے کے تحت پیش کی تھی تاکہ مشرق وسطیٰ میں امن کے ساتھ فلسطین کا مسئلہ حل ہو جائے لیکن جنرل اسمبلی نے امن کا موقع نہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے مسئلے کا حل اسی میں ہے کہ ہمیں ریاست کے قیام کے لیے ایک ٹائم فریک دیا جائے۔ پھر اسرائیل اس ٹائم فریم کی پابندی کرے۔
صدر محمود عباس نے فلسطین میں اسرائیل کی غیر قانونی یہودی آباد کاری کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اسرائیل بندوق کے زور پر ہم سے ہماری زمین اور املاک غصب کررہا ہے۔ ہمیں اجتماعی سزاوں کا سامنا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد مسئلہ فلسطین کو حل کرانے اور اسرائیل کو اپنے حدود میں کرنے میں مدد فراہم کرے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین