(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینیوں پر صہیونی ریاست کے مظالم کے تاریک پہلوؤں میں ایک ماؤں کو ان کے بچوں سے جدا کرنا اور زندگی بھر انہیں ایک دوسرے کی یاد میں تڑپائے رکھنا ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بیٹوں کی جدائی میں تڑپتی فلسطینی مامتاؤں میں 89 سالہ الحاجہ زبیدہ محمد خلیل العواودہ بھی ہیں جو عمررسیدگی کے باوجود ملک سے جبراً بے دخل کیے گئے اپنے بیٹے سے زندگی میں ایک بار ملنے کی تمنا لیے زندگی کے سانسیں گن رہی ہیں۔زبیدہ خلیل کے بیٹے کو دو بار11 سال تک اسرائیلی جیلوں میں قید رکھا گیا اور دوران بھی بیٹے کی جدائی میں تڑپتی ماں کو بیٹے سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ مگر دونوں ماں بیٹے میں فراق بیٹے کی رہائی کے بعد بھی ختم نہ ہوا کیونکہ صہیونی انتظامیہ نے رہائی کے فوری بعد بیٹے کو ترکی بے دخل کردیا۔
رپورٹ میں ماں اور بیٹے کے درمیان صہیونی ریاست کی جانب سے پیدا کی گئی جدائی کے حوالے سے ایک انفوفیلم میں روشنی ڈالی ہے۔
بوڑھی اماں جن کی عمر 89 سال ہے۔
اس کا جسم بڑھاپے کے باعث نحیف اور تکالیف میں گھرا ہے۔
وہ حرکت کرنے اور کچھ کھانے کی سکت بھی نہیں رکھتی۔
میڈیکل رپورٹس اس کی خرابی صحت کی سند ہیں۔
سنہ 2010ء کو بیٹے کی اسرائیلی جیل سے رہائی کے بعد وہ اس سے نہیں مل سکیں۔
بیٹے صلاح الدین العوادہ کو ترکی بے دخل کر دیا گیا۔
سوائے ایک بار سنہ 2013ء میں
الحاجہ زبیدہ العواودہ
اسرائیلی فیصلے کے تحت ترکی کے سفر سے محروم رہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے فلسطینی بوڑھی ماں کو ترکی میں بیٹے سے ملاقات کے لیے سفری کی اجازت دینے کی مہم چلائی گئی۔
مگر اس میں بھی طویل وقت صرف ہو گیا۔
انتظار طول پکڑتا گیا۔ زبیدہ کے بیرون ملک علاج اور بیٹے سے ملاقات کے مواقع کم سے کم ہوتے چلے گئے۔
زبیدہ کے اہل خانہ نے فلسطینی اتھارٹی سے کردار ادا کرنے کی اپیل کی کہ وہ بوڑھی عورت کے بیرون ملک سفرکا اہتمام کرے۔
عمر رسیدہ مریضہ فلسطینی کو سفر سے روک دیا گیا۔
آپ کے خیال میں کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے؟