رام اللہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) تنظیم آزادی فلسطین PLO کی مجلس عاملہ کے سکریٹری جنرل صائب عریقات نے واشنگٹن میں فلسطینی مشن کے دفتر کی بندش سے متعلق امریکی انتظامیہ کے فیصلے کی تصدیق کی ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پیر کے روز ایک اخباری بیان میں عریقات نے اسے قابض اسرائیلی نظام اور اس کے جرائم کو بچانے کے واسطے ایک دانستہ اقدام اور سوچی سمجھی جارحیت قرار دیا جس کے بھیانک سیاسی نتائج ہوں گے۔فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی WAFA کے مطابق عریقات نے بتایا کہ "ہمیں سرکاری طور پر اس بات سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ امریکی انتظامیہ واشنگٹن میں ہمارے سفارت خانے کو بند کر دے گی۔ یہ کارروائی ہمارے بین الاقوامی جرائم کی عدالت کے ساتھ مل کر اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف کام کرنے کے سبب کی جا رہی ہے۔ واشنگٹن میں فلسطینی پرچم کو اُتار دیا جائے گا۔ یہ امن اور انصاف کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کا ایک نیا دھچکا ہو گا۔ یہاں تک ہی نہیں بلکہ امریکی انتظامیہ بین الاقوامی جرائم کی عدالت کو بلیک میل بھی کر رہی ہے اور بین الاقوامی سطح پر انصاف کو یقینی بنانے والے اس فورم کو بھی دھمکا رہی ہے”۔
عریقات نے واضح کیا کہ "فلسطینی اتھارٹی امریکا میں رہنے والے فلسطینیوں کی قونصل خانے کی خدمات تک رسائی محفوظ بنانے کے لیے مطلوبہ اقدامات کرے گی”۔
امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل” نے بتایا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پیر کے روز واشنگٹن میں پی ایل او کے مشن کا دفتر بند کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اخبار کے مطابق اس حوالے سے فیصلے کا اعلان امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کریں گے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ "امریکا ہمیشہ اپنے دوست اور حلیف اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہے گا اور (پی ایل او کا) یہ دفتر اُس وقت تک بند رہے گا جب تک فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کرنے سے انکار کیا جاتا رہے گا”۔
اس کے مقابل امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے پیر کے روز بتایا ہے کہ امریکی اقدام اُن اقدامات کی کڑی ہے جن کا اعلان جان بولٹن کی جانب سے کیا جائے گا۔ بولٹن کا یہ اعلان اُن تنظیموں اور ممالک کے خلاف ہو گا جو جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں اس دعوے کے ساتھ امریکا کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہتے ہیں کہ اُس نے افغانستان میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے نومبر 2017ء میں واشنگٹن میں پی ایل او کے مشن کے دفاتر کی بندش کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ یہ پیش رفت فلسطینی صدر کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران کیے گئے اُس مطالبے کے بعد سامنے آئی جس میں محمود عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے خلاف فوجداری تحقیق کا آغاز کیا جائے۔