(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیل کے عبرانی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کی بعض کمپنیاں بیت المقدس میں واقع گرجا گھروں کی اراضی کے مالیاتی حقوق اور ان کے لیز کے حق کو خریدنے کے لیے خفیہ معاہدے کر رہی ہیں۔
عبرانی اخبار’’ہارٹز‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کی ایک کمپنی نے بیت المقدس میں ’غان رحابیا‘ نامی چرچ کی اراضی کا کرایہ حاصل کرنے کا معاہدہ کر رکھا ہے اور کمپنی طویل عرصے سے گرجا گھر کی اراضی کا کرایہ وصول کر رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق اس کمپنی کے مالک شلومو درعی جو ’کیرن کیمت‘ نامی دارے کے چیرمین ہیں ساتھ ہی اسرائیلی پارلیمنٹ کے بھن رکن ہیں۔ان کے ایک بھائی اریہ درعی ’شاس‘ نامی یہودی جماعت کے سربراہ اور رکن کنیسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔ انہوں نے کھیتولیک گرجا گھر’گان رحابیا‘ کی اراضی پٹے پرحاصل کی تھی۔ اس اراضی پر 70 مکان قائم ہیں اور ان میں سیکڑوں شہری رہائش پذیر ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہودی کمپنی کیرن کیمت نے سنہ 2019ء تک گرجا گھر کی اراضی پٹے پر حاصل کی ہے اس کے بعد وہ تمام مکانات اور اراضی اس کمپنی کی ملکیت قرار دی جائے گی۔ سنہ 2035ء تک یہ کمپنی وہاں پر رہنے والوں کو بغیر کسی معاوضے کے بندوق کے نوک پروہاں سے نکال باہر کیا جا سکتا ہے۔
عیسائی گرجہ گھروں کے لیے وقف اراضی پٹی پر حاصل کرنے کی اسرائیلی سازشوں کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل بھی اس طرح کے کئی معاہدے طے پا چکے ہیں۔
مماثل سمجھوتے
عبرانی اخبار’’ہارٹز‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی کمپنیوں کی جانب سے عیسائی گرجا گھروں کی اراضی اور دیگر املاک پٹے پرحاصل کرنے کا یہ پہلا سمجھوتہ نہیں۔ بلکہ اب تک اس طرح کے کئی سمجھوتے کیے جا چکے ہیں۔
دو ہفتے قبل بیت المقدس میں ’راس رحابیا‘ کے مقام پر فلسطینی باشندوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے گھر آدھی قیمت پر فروخت کریں کیونکہ سرمایہ کار کمپنیوں نے یہ جگہ سنہ 2034ء تک کے لیے لیز پر حاصل کر لی ہے۔ اسرائیلی کمپنیوں کی جانب سے راس رحابیا کے مقام پر 32 خاندانوں کو اپنے مکان جبرا فروخت کرنے کے نوٹس جاری کیے۔
دو ہفتے قبل بھی یہ اطلاعات آئی تھیں کہ شاہراہ زکیز اور شموئیل ہنگید پر واقع ’’غان رحابیا‘‘ کی اراضی ’’موشے عیدن‘‘ نامی ایک کمپنی کے سرمایہ کاروں نے لیز پرحاصل کی ہے۔ یہ کمپنی مذکورہ اسرائیلی رکن کنیسٹ شلومو درعی کی ملکیت بتائی جاتی ہے۔
ایک مقامی شہری نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ اسرائیلی حکومت حکومت القدس میں عبادت گاہوں کی اراضی کو سرکاری مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے قبل قانون سازی کی کوشش کر رہی ہے مگر اسے اس میں ناکامی کا سامانا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے صہیونی ریاست نے ایسی ارضی پرخود قبضہ کرنے کے بجائے نام نہاد سرمایہ کاروں کو آگے کر دیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا کہ فلسطین کے شہروں بالخصوص بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے لیز پر اراضی کے حصول کے بیشتر معاہدے 99 برس کے لیے کیے جاتے ہیں۔ سنہ 1950 اور 1951ء میں کیے معاہدے اگلے 33 سے 34 سال کے دوران اختتام پذیر ہو جائیں گے۔