اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کے وجود کو ختم کرنے کے لیے تمام ذرائع اور وسائل کا بھرپور طریقےسے استعمال کر رہا ہے۔ ایک جانب فلسطینیوں کے مکانات کوغیرقانونی قرار دے کر انہیں مسمار کیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی یہودی آباد کاری میں توسیع کے ذریعے القدس کے فلسطینی باشندوں کا ناطقہ بند کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب یہ انکشاف ہوا ہے کہ صہیونی وزارت داخلہ نے فلسطینی بچوں کی رجسٹریشن اور شادی بیاہ سے متعلق ریکارڈ کو غائب کرنا شروع کر دیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کےمطابق مقبوضہ بیت المقدس میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم”سانٹ ایف” نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی وزارت داخلہ نہ صرف فلسطینیوں کا پہلے سے موجود ریکارڈ غائب کررہی ہے بلکہ نئی رجسٹریشن کی درخواستیں بھی ردی کی ٹوکری میں پھینکی جا رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سنہ 2000ء کےبعد سےآج تک تیرہ سال میں مجموعی طور پر فلسطینی بچوں کی رجسٹریشن کی 43 فی صد درخواستیں مسترد کر دی گئیں یا ان پرکوئی کارروائی کرنے کے بجائے انہیں ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا گیا۔ 18 فی صد درخواستوں پر کام ملتوی کیا گیا جبکہ صرف بچوں کی رجسٹریشن کی 24 فی صد درخواستیں غائب کر دی گئی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران بیت المقدس میں14 سال سے کم عمر کے12 بچوں کی رجسٹریشن کے لیے صہیونی وزرات داخلہ کو درخواستیں دی گئیں، لیکن ان درخواستوں پر کارروائی مسترد کر دی گئی اور کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی کی بنیاد پر حکومت ان بچوں کی رجسٹریشن نہیں کر سکتی ہے۔
"سانٹ فاؤنڈیشن” کا کہنا ہے کہ صہیونی وزارت داخلہ انہیں بچوں اور شادیوں کی رجسٹریشن سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا پابند ہے لیکن جب ان کے وکیل ہیثم الخطیب نے صہیونی حکام سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوںنے ٹال مٹول سےکام لینا شروع کردیا۔ بعد ازاں وکیل کو بعض دوسرے ذرائع سے کچھ معلومات ملی ہیں۔ ان کےمطابق سنہ 2000ءکے بعد اب تک اسرائیلی وزارت داخلہ کو رجسٹریشن سے متعلق 12 ہزار 284 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے 5629 پر کارروائی کی گئی جبکہ 4249 کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ یہ تعداد کل موصول ہونے والی درخواستوں کا 43 فی صد ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے فلسطینی بچوں کی رجسٹریشن میں لاپرواہی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت دراصل فلسطینیوں کے وجود کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہاں فلسطینیوں کی نئی نسل کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھنا چاہتی ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین