سن 1948 میں فلسطینیوں کو بے دخل کرکے بنائی گئی یہودی ریاست اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ”بیٹ سیلم” کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت ایک سال قبل صہیونی دردندگی کا نشانہ بننے والے فلسطینی نوجوان کے قتل کی تحقیقات میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔
تنظیم کے مطابق اسرائیلی عسکری پراسیکیوٹر کو اس ضمن میں متعدد درخواستیں بھیج دی گئی ہیں اور ان سے اس معاملے کی وضاحت دینے کا بھی بارہا مطالبہ کیا جا چکاہے تاہم وہاں سے کوئی جواب نہیں آتا۔ بیٹ سیلم نے اعلان کیا کہ وہ اس معاملے کو جلد نمٹانے کے لیے تمام ممکنکہ تدابیر اختیار کریگی اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتی رہیگی۔بیٹ سیلم کے معلومات جمع کرنے کے یونٹ کے سربراہ نے بتایا کہ انہیں اس حادثے کے دو ماہ بعد تک اس کی تحقیقات مکمل ہونے کا اندازہ تھا تاہم اس ایک سال سے زائد عرصے میں بھی تحقیقات مکمل نہ کرنا ناقابل فہم ہے۔یاد رہے کہ سن 2011 کے دسمبر میں اسرائیلی فوجی نے آنسو گیس کا شیل انتہائی قریب سے ستائیس سالہ فلسطینی مصطفی تمیمی پر داغا تھا جس کے بعد اسے شدید زخم آئے تھے۔ اسرائیلی اہلکار نے یہ کارروائی اس وقت کی جب گاؤں نبی صالح میں فلسطینی اپنے اراضی ہتھیائے جانے کے خلاف شدید احتجاج کر رہے تھے۔تنظیم نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد تنظیم نے اسرائیلی پولیس سے رجوع کرکے اپنی شکایت داخل کروائی تھی جس کے دو روز بعد تحقیقات شروع کردی گئیں تاہم عسکری پراسیکیوٹر نے اب تک اس ضمن میں فرد جرم تیار نہیں کی بلکہ الٹا اس فائل کو سرد خانے کی نذر کردیا ہے۔