فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کی ایک”اپیل کورٹ” نے کل منگل کے روز بزرگ فلسطینی رہ نما الشیخ رائد صلاح کےخلاف”خطبہ وادی الجوز” کے نام سے قائم مقدمہ کی سماعت کی۔
یہ مقدمہ شیخ رائد صلاح کی چھ جنوری 2007ء کو مقبوضہ فلسطین کے شہر وادی الجوزمیں ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران کی گئی تقریرکی بنیاد پرقائم کیا گیا ہے۔ اپنی اس تقریرمیں ممتاز فلسطینی رہ نما نے یہودیوں کی مسجد اقصیٰ کے مراکشی دروازے پر یلغار اور دروازے کی راہ داری مسمار کرنے پر سخت تنقید کی تھی اور فلسطینیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ قبلہ اول کےدفاع کے لیے تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لائیں۔
ان کی اسی تقریر کی بنیاد پرصہیونی حکام نے ایک مقدمہ قائم کیا تھا۔ اب تک اس مقدمہ کی کئی سماعتیں ہوچکی ہیں۔ گذشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران صہیونی اٹارنی جنرل نے دلائل دیے۔ حسب معمول سرکاری وکیل نے الزام عائد کیا کہ شیخ رائد صلاح نے اپنی تقریرمیں یہودیوں کےخلاف پرتشدد حملوں کیلئے فلسطینیوں کو ترغیب دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شیخ رائد صلاح اپنا زیادہ تر وقت مسجد اقصیٰ میں گذارتے ہیں۔ فلسطینی عوام اور عالم اسلام بالخصوص مذہبی حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ ان کی جانب سے یہودیوں پر حملوں کی ترغیب موثر ثابت ہوسکتی ہے اور اس طرح کی تقاریر سے یہودیوں کے جان ومال خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
اس موقع پرشیخ رائد صلاح کے وکلاء کے پینل کے سربراہ فیلڈمین نے صہیونی پراسیکیوٹر جنرل کے تمام الزامات مسترد کردیے۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شیخ رائد صلاح نے جوکچھ بھی اپنی تقریر میں کہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ ان کی تقریر سے فلسطینیوں کو یہودیوں پراکسانے کا تاثر نہیں ملتا۔ اسرائیل شیخ رائد صلاح پر پابندیاں لگانے کے لیے اس نوعیت کے الزامات کا سہارا لے رہا ہے۔
انہوں نے صہیونی عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے استفسار کیا کہ "کیا اگرکسی قوم کا ایک تاریخی مذہبی مقام غیرمحفوظ ہوجائے اور اس پردوسری قوم کے شرپسند مسلسل حملے کرنے لگیں تو کہا اس مقدس مقام کا تحفظ اس مذہب کے پیروکاروں کے لیے ضروری نہیں؟ مقدس مقامات کے تحفظ کا حق تو مسلمہ ہے اور تمام عالمی ادارے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ مسٹرایڈووکیٹ فیلڈ مین کے ٹھوس دلائل پرسرکاری وکیل کی بولتی بند ہوگئی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین