اسرائیل کے انتہا پسند وزیر خارجہ ایویگڈور لائبرمین نے اپنے خلاف اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور فراڈ کے الزام میں فرد جرم عاید ہونے کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے۔
انتہا پسند قوم پرست یہودی ایویگڈور لائبرمین نے جمعہ کو ایک بیان جاری کیا ہے۔ اس میں ان کا کہنا ہے کہ ”میں قانونی طور پر اپنا استعفیٰ دینے کا پابند نہیں ہوں لیکن میں نے وزیرخارجہ اور نائب وزیر اعظم کے عہدوں سے اور اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا ہے”۔
مسٹر لائبرمین نے کہا کہ وہ اپنے خلاف عاید کیے گئے الزامات کا مقابلہ کریں گے اور بائیس جنوری کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سیاسی منظر نامے میں واپس آئیں گے۔
ان کا کہنا تھا:”میں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ تاکہ اس مسئلہ کے حل ہونے کے بعد اسرائیل کے شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ عدلیہ کو انتخابات کے انعقاد سے قبل اپنا فیصلہ دینا ہوگا۔اس کے بعد ہی میں اسرائیلی شہریوں کی خدمت کر سکوں گا”۔
لائبرمین حکمراں اتحاد میں شامل جماعت یسرائیل بیتنو کے سربراہ ہیں۔ان پر جمعرات کو فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں فرد جرم عاید کی گئی تھی۔ اس پر انھوں نے کہا تھا کہ وہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے مستعفی ہونے سے قبل اپنے وکلاء سے مشاورت کریں گے۔ مخلوط اسرائیلی حکومت میں شامل انتہاپسند لائبرمین فلسطینیوں کے خلاف تندوتیز بیانات جاری کرتے رہے ہیں۔ان کے جذباتی پن سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو کئی مرتبہ سبکی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
اسرائیل کے اٹارنی جنرل نے گذشتہ روز لائبرمین پر فراڈ اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے الزام پر فرد جرم عاید کی تھی لیکن ان پر زیادہ سنگین الزامات واپس لے لیے گئے ہیں۔ان پر منی لانڈرنگ سے متعلق زیادہ سنگین کیس کی واپسی کو لائبرمین کی فتح قرار دیا گیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر خارجہ کے مستعفی ہونے کے بعد اب وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو بھی پارلیمانی انتخابات کے انعقاد سے پانچ ہفتے قبل حکومت چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکتاہے۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین