ایڈیٹر الوف بن نے یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ اس میں یہ نہیں بتایا کہ آیا فلسطینی اور عرب قیدیوں کا اجتماعی قتل عام کس جنگ میں کیا گیا تاہم اتنا بتایا گیا ہے کہ اجتماعی قتل عام کا حکم دینے والے اس وقت کے فوجی افسر کو بعد ازاں اعلیٰ عہدوں پر ترقی بھی دی گئی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں عرب شہریوں کو قیدی بنائے جانے کے بعد انہیں ہتھیار ڈالنے کو کہا گیا۔ جب انہوں نے ہتھیار پھینک دیے توایک حراستی مرکز لے جایا گیا جہاں پہلے تو انہیں کھانا پینا دیا گیا۔ پہلے چند روز وہ ایک فوجی یونٹ کے قبضے میں رہے۔ بعد ازاں ان کی نگران فوجی یونٹ تبدیل ہوگئی۔ نئی یونٹ کے کمانڈر نے فوجیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قیدی بنائے گئے تمام عربوں کو گولیاں مار کر شہید کردیں۔ ان میں دسیوں زخمی قیدی بھی شامل تھے۔ اس پر کچھ فوجیوں نے بغیر کسی وجہ کے قیدیوں کو اجتماعی طور پرقتل کرنے کے حکم کی تعمیل سے انکار کیا مگر بعض فوجیوں نے رضاکارانہ طور پر اس جنگی جرم کا ارتکاب کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قیدی بنائے گئے فوجیوں کو تین تین کے گروپ میں کھڑا کیا گیا۔ ان میں سے ایک فوجی کو ترجمان بنایا گیا۔ باقی کوگروپوں کی شکل میں گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔ آخر میں ترجمان کی پشت پرگولیاں ماری گئیں اور وہ بھی شہید ہوگیا۔ بڑی تعداد میں شہید کیے گئے عربوں کے لیے بلڈوزر کی مدد سے قبریں کھودی گئیں اور ان سب کو اجتماعی طور پردفن کردیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جس فوجی اہلکار نے قیدی بنائے گئے عرب سپاہیوں کو شہید کیا تو اس نے بعد ازاں اعتراف جرم کیا تھا۔ اس معاملے کی تحقیقات بھی کی گئیں ایک جونیئر اہلکار کو تین سال قید کی سزا ہوئی تھی بعد ازاں اسے بھی سات ماہ کے بعد رہا کردیا گیا تھا جب کہ اس جنگی جرم کے اصل محرک یونٹ کمانڈر کو فوج میں اعلیٰ عہدوں پر ترقی دی گئی۔
رپورٹ میں یہ وضاحت نہیں کی گئی آیا اجتماعی طور پرقتل کیے گئے عرب فوجیوں کا تعلق کس ملک سے تھا اور ان کی تعداد کتنی تھی اور انہیں کون سی جنگ میں گرفتار کرکے شہید کیا گیا۔ البتہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کے شہریوں کو جنگی قیدی بنائے جانے کے بعد انہیں بے رحمی کے ساتھ موت کےگھاٹ اتارنا سنگین جنگی جرم ہے۔