فلسطین کے نامور مصنف منیر شفیق نے یہودی آبادکاروں اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے آئے روز کے حملوں سے تحفظ کے لیے مغربی کنارے میں تیسری انتفاضہ تحریک شروع کرنے کامطالبہ کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقے میں صہیونی امریکی منصوبہ رو بہ زوال ہے۔
مختلف ممالک میں امریکی شکست اور اسکی گرتی معیشت کے تناظر میں فلسطینیوں کی اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت کامیاب ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
غزہ میں اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کی سربراہی میں منعقد قومی اسلامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے منیر شفیق کا کہنا تھاکہ اسرائیلی حملوں کو روکنے اور مسجد اقصی سمیت تمام مقدس مقامات کو یہودی آباد کاروں کے دھاوں سے بچانے کے لیے مسلح مزاحمت یا تیسری انتفاضہ تحریک ناگزیر ہوگئی ہے۔
فلسطینی تحقیق کار کے مطابق اگر مغربی کنارے میں تحریک انتفاضہ شروع کردی جائے اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی دلدل میں دھنسنے سے گریز کیا جائے تو کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ ان کے بہ قول موجودہ حالات میں واشنگٹن چند ماہ کے لیے بھی انتفاضہ کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ چنانچہ اس مرتبہ انتفاضہ تحریک اسرائیلی شکست کے لیے نوشتہ دیوار ثابت ہوگی۔
فلسطینی حالات پر گہری نظر رکھنے والے منیر شفیق نے اس یقین کا اظہار بھی کیا کہ امریکا اور اسرائیل دونوں رو بہ زوال ہیں اور فلسطینیوں کی انتفاضہ تحریک کے آغاز کی صورت میں ان دونوں کا زوال مزید قریب آ جائے گا۔
عرب بہار
معروف فلسطینی مصنف نے حالیہ عرب بہار میں واشنگٹن کے کردار کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اگرچہ عرب انقلابات کی اس تحریک میں شامل ہوکر اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کر تا رہا تاہم اس تحریک کے پیچھے امریکی ہاتھ نہیں ہے۔ عرب ممالک میں انقلابات کی اصل وجہ امریکا کی کمزوری ہے۔ اسے گزشتہ دہائی کے دوران پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ سے اس کا مشرق وسطی کو نئے خطوط پر استوار کرنے کا منصوبہ بھی ناکامی سے ہمکنار ہوا۔
واشنگٹن عراق پر قبضہ کرنے میں ناکام ہوا، اسی طرح سن 2000 تا 2005 فلسطینیوں کے دوسرے انتفاضے کے دوران اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور غزہ نے آزادی حاصل کرلی ۔ سال 2006 میں جنوبی لبنان کی جنگ میں بھی امریکا اور اسرائیل کو بدترین شکست ہوئی۔ اب عرب ممالک میں آنے والے انقلابات نے امریکا کو مزید کمزور کردیا ہے۔ مصر جیسے خطے کے اہم ملک سے حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمے نے اسرائیل کو اپنی اسٹریٹجی بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔ مصر کی جماعتوں کے مابین توازن اب واشنگٹن کے حق میں نہیں رہا۔
انہوں نے عالمی مالیاتی بحران کے اثرات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ اس بحران سے جہاں بڑی بڑی کمپنیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے وہیں دنیا پر امریکا اورمغرب کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے۔ امریکا کی اسی کمزوری کے سبب روس اور چین کی سربراہی میں دوسری عالمی قوتوں کو بھی مشرق وسطی میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع مل رہا ہے اور خطے میں طاقت کا نیا توازن پیدا ہو رہا ہے۔
انہوں نے عرب انقلابات میں امریکی دخل اندازی پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود امریکا عرب ممالک میں اٹھنے والی بیداری کی لہر پر اس طرح اثر انداز نہیں ہو سکا جیسا کہ امریکی صدر بش سینئر اور جونیئر کے دور میں تھا۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ عرب انقلابی تحریکوں کے پیچھے امریکی موجودگی کی باتیں وہم سے زیادہ کچھ نہیں۔
معرکہ ”کنکریٹ کے پتھر”
فلسطینی دانشور نے گزشتہ سال نومبر میں اسرائیل کی غزہ پر غارت گری کے اثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس آٹھ روزہ معرکے کی وجہ سے اسرائیل اور امریکا کی کمزوری میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ دونوں قوتوں کے جنگ کے دوسرے روز ہی اسے ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کردیا تھا۔ حتی کہ اسرائیل کو جنگ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل اور تحریک جہاد اسلامی کے سیکرٹری جنرل رمضان شلح کی شرائط پر ہی بند کرنا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمت کاروں کے راکٹوں کی تل ابیب اور مشرقی القدس تک پہنچ کا اسرائیل کو اندازہ تک نہ تھا۔ بلاشبہ اس جنگ میں غزہ سرخرو ہوکر نکلا۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین