عبرانی زبان میں نشریات پیش کرنے والے چینل 10 کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان تنظیموں میں شامل یونی تصدوق نامی گروپ کے ارکان بحر مردار علاقے میں دیکھے گئے ہیں جو وہاں سے قدیم پتھر جمع کرتے دیکھے گئے ہیں کہ جنہیں مبینہ طور پر مسجد اقصی کو شہید کر کے "الھیکل مذبح خانہ” کی تعمیر میں نصب کیا جانا تھا۔
چینل کے مطابق یہود عتصیون نامی آبادکار "الھیکل” کی از سر نو تعمیر کے منصوبے کا روح رواں ہے۔ یہ ملعون اسی کی دہائی میں مسجد اقصی پر حملے کی پاداش میں سات برس قید کاٹ چکا ہے۔
چینل ٹین پر نشر ہونے والے عتصیون کے بیان کے مطابق "ہم الھیکل کی تعمیر کے لئے اقصی کو شہید کرنے پر مجبور ہیں اور اس ضمن میں منصوبہ بندی جاری ہے۔ پہاڑی کے گنبد کو برقرار رکھنا محال ہے، اس لئے اس کا شہید کیا جانا ضروری ہے تاکہ مسلمان عبادت کے لئے مکہ، جبکہ عیسائی روم کا رخ کریں اور القدس کو یہودیوں کی عبادت گاہ کے طور پر مختص کر دیا جائے۔
مزعومہ ھیکل کا ڈیزائن تیار کرنے والے انجینئر یورام نے اپنے مذموم منصوبے کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں انتہائی صبر کے ساتھ الھیکل کی تعمیر کا انتظار کر رہا ہوں۔ یہ روئے زمین پر اللہ کی جنت ہو گی اور لاکھوں افراد اس آسمانی شہر اور ارض الانبیا کی زیارت کو آیا کریں گے۔
چینل ٹین پر نشر ہونے والی رپورٹ میں جنوبی مغربی کنارے کی یہودی بستی "غوش عتصیون” میں جاری تیاریوں کی جھلکیاں بھی دکھائی گئیں جس میں بڑی تعداد میں وہ جانور دکھائے گئے جنہیں ان کے مالک کسان نے الھیکل پر اللہ کے نام پر قربان کرنا ہے۔ یہ جانور الھیکل کی تعمیر تک اپنی سانسیں گن رہے ہیں۔ اسی رپورٹ میں اسرائیل فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل کا بیان بھی دکھایا گیا ہے جس میں وہ فلسطینیوں کو انتہائی معمولی چیز سے تعبیر کرتے ہیں۔ جنرل کے بہ قول اسرائیلی ریاست ان فلسطینیوں کو خاطر میں لائے بغیر مسجد اقصی سے جو کھلواڑ کرنا چاہیں، کر سکتے ہیں۔
ریٹائرڈ جنرل نے مزید کہا کہ اسرائیل نے مسجد اقصی کی طرف جو بھی اقدام اٹھایا اس سے نئی سے نئی انتفاضہ کو ہوا ملی۔ سنہ 1996 میں انتفاضہ خندق ہوئی جس میں 17 صہیونی فوجی مارے گئے اور پھر قربانیوں کی یہ داستان طویل سفر طے کرتے ہوئے سنہ 2000ء تک پہنچتی ہے جب حال ہی میں انتقال پانے والے جنرل ایریل شیرون نے مسجد اقصی میں یہودی عبادات ادائی کی ناپاک جسارت کی، اس اقدام سے پیدا ہونے والی انتفاضہ چودہ برس جاری رہی۔