فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایک انٹرویو میں فلسطینی وزیر تعلیم ڈاکٹر صبری صیدم نے کہا کہ انہیں اس بات پرگہری تشویش ہے کہ اسرائیلی حکومت ایک سازش کے تحت بیت المقدس کے تمام فلسطینی اسکولوں میں مرضی کا نصاب مسلط کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے سال 2016ء کو القدس کے فلسطینی اسکولوں میں عبرانی نصاب تعلیم کا سال قرار دینا اعلان جنگ سے کم نہیں ہے۔ اسرائیل نصاب تعلیم مسلط کرکے بیت المقدس کی فلسطینی، تاریخی اور اسلامی شناخت مسخ کرنا چاہتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی وزیر کا کہنا تھا کہ جب سے صہیونی حکومت نے القدس کے فلسطینی اسکولوں میں مرضی کا نصاب مسلط کرنے کی تیاری شروع کی ہے اس وقت ہی القدس کا تاریخی، تہذیبی اور عرب تشخص خطرے میں پڑ چکا ہے۔
ڈاکٹر صبری صیدم نے کہا کہ بیت المقدس صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ پوری عرب دنیا کا ثقافتی دارالحکومت ہے اور شہر کے عرب تشخص کا دفاع تمام عرب اقوام کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ انہوں نے فلسطینی قوم پر زور دیا کہ وہ صہیونی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ نصاب اور نظام تعلیم کو مسترد کردیں کیونکہ اسرائیل فلسطینی قوم کی نئی نسل کے ذہن بگاڑنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کے تمام شہر بالخصوص بیت المقدس اسرائیلی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ ثقافتی اور تہذیبی جنگ کا سامنا کررہا ہے۔ اسرائیل بیت المقدس پر یہودیت اور عبرانیت مسلط کرکے القدس کا تشخص مٹا رہا ہے۔ انہوں نے القدس کے مسلمانوں اور مسیحی برادری پر زور دیا کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرتے ہوئے القدس میں اسرائیلی مرضی کا مسلط کردہ نصاب مسترد کردیں کیونکہ القدس کے اسکولوں میں نصاب کی تبدیلی سے نہ صرف مسلمان بچے متاثر ہوں گے بلکہ عیسائیوں کے بچے بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں اسرائیلی حکومت نے بیت المقدس کے تمام فلسطینی اسکولوں میں مرضی کا نصاب مسلط کرنے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی سال 2016ء کو بیت المقدس کے اسکولوں میں عبرانی نصاب تعلیم کا سال قرار دیا گیا ہے۔
بیت المقدس کے اسکولوں میں صہیونیت اور عبرانیت مسلط کرنے کی یہ پہلی سازش نہیں بلکہ اس سے قبل بھی ماضی میں کئی باراسرائیلی حکومتیں القدس کی شناخت مسخ کرنے کے لیے فلسطینی تعلیمی اداروں پر دباؤ ڈالنے اور ان پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کرچکی ہیں۔
