مقبوضہ بیت المقدسÂ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمنٹ) کی جانب سے گذشتہ روز فلسطینی مساجد میں اذان پر پابندی کے متنازع قانون کی منظوری پر فلسطین بھر میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق فلسطینی سیاسی اور مذہبی رہ نماؤں نے مساجد میں اذان دینے پر پابندی کی صہیونی سازش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قانون پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔رپورٹ کے مطابق فلسطینی وزیر اوقاف ومذہبی امور الشیخ یوسف ادعیس نے اذان پر پابندی کے قانون کو صہیونی ریاست کی نسل پرستی کی ایک نئی شکل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اذان پر پابندی کاقانون فلسطینیوں کے خلاف مذہبی جنگ چھیڑنے اور شعائر اسلام اور مسلمانوں کے عقیدے پر حملہ ہے۔
ایک بیان میں الشیخ ادعیس نے کہا کہ صہیونی ریاست کے متنازع قانون سے نسل پرستی اور مسلمان دشمنی کی بو آ رہی ہے۔ جن نام نہاد دعووں اور وجوہات کی آڑ میں یہ قانون منظور کیا گیا ہے ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ صہیونی ریاست ایک سازش کے تحت مساجد میں اذان پر پابندی عاید کرکے فلسطینی مسلمانوں کے عقیدے ، مذہب اور عبادت کے معاملات میں دخل اندازی کررہی ہے۔
فلسطینی وزیر مذہبی امور و اوقاف نے عالم اسلام اور عرب ممالک پر زور دیا کہ وہ فلسطینی مساجد میں اذان پر پابندی کے قانون کے خلاف آواز بلند کریں اور قانون پر عمل درآمد رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر پابندی کا قانون صرف اذان نہیں بلکہ کل کو نماز اور مساجد کے قیام پر پابندی کا پیش خیمہ ہے۔ اسرائیل منظم پالیسی کے تحت فلسطینی مسلمانوں، ان کے مقدس مقامات اور شعائر پر پابندی کی کوششیں کررہا ہے۔
فلسطینی وزیر نے کہا کہ قوم صہیونی ریاست کے ظالمانہ قانون کو کسی صورت میں قبول نہیں کرے گی۔ یہ قانون فلسطینی مذہبی روایات، اسلامی شعائر اور اسلامی تہذیب وثقافت پر صہیونیوں کا ایک نیا وار ہے۔ اس طرح کے مکروہ حربوں کے ذریعے صہیونی دشمن فلسطینی قوم کی تاریخ اور تہذیب وثقافت کو مٹا نہیں سکتا۔
صہیونی کنیسٹ میں متحدہ عرب محاذ کے سربراہ ایمن عودہ نے مساجد میں اذان پر پابندی کا اسرائیلی قانون پرزے پرزے کرڈالا۔
اذان پر پابندی کے متنازع قانون کی منظوری کے بعد عرب متحدہ محاذ کے چیئرمین Â اور اسرائیلی کنیسٹ کے رکن ایمن عودہ نے مسودہ قانون کی کاپیاں پھاڑ کرپھینک دیں۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایمن عودہ نے کہا کہ اس قانون کا تعلق ماحولیات سے ہے اور نہ ہی شور وغل روکنے کے لیے ہے۔ یہ نسل پرستانہ قانون مسلمان عرب شہریوں اور فلسطینیوں کے خلاف صہیونی ریاست کی مذہبی انتہا پسندی کی بدترین شکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اذان پر پابندی کا قانون ’النکبہ‘اور فلسطینیوں کو غلام بنانے کے ظالمانہ قوانین کا تسلسل ہے۔ اگر یہ قانون منظور ہوتا ہے تو وہ اس کی پابندی نہیں کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نہ تو اذان پر پابندی کا قانون تسلیم کرتے ہیں اورنہ ہی فلسطینیوں کے مکانات مسماری کا قانون تسلیم کریں گے۔ اس طرح کے تمام قوانین فلسطینیوں اور عرب قوم کے خلاف اسرائیل کی نسل پرستی کا واضح ثبوت ہیں۔ فلسطین کی دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتوں اور سماجی انجمنوں نے بھی اسرائیلی پارلیمنٹ میں اذان پر پابندی کے قانون پر رائے شماری کی شدید مذمت کی ہے اور اسے صہیونی ریاست کی نسل پرستانہ پالیسیوں کا تسلسل قرار دیا ہے۔