حلایقہ نے مرکز اطلاعات فلسطین کو دئیے جانے والے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ”ہم ابو مازن [صدر فلسطینی اتھارٹی محمود عباس] سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطینی سیکیورٹی فورسز کو سیاسی گرفتاریاں عمل میں لانے سے روک دیں اور اصل قومی مفاہمت کی راہ ہموار کریں۔”
حلایقہ کا کہنا تھا کہ ” ہمیں امریکا اور اسرائیل کو فلسطینی قانون ساز کونسل کے خلاف ویٹو کرنے سے روکنا ہوگا تاکہ وہ اپنے قانون ساز اور قانونی مشن پورے کرسکے۔”
حلایقہ نے الاقصٰی کو نشانہ بنانے کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ،” ہم ہمیشہ ہی سے مفاہمت کو اسرائیلی سازشوں کا مقابلہ کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔”
حلایقہ نے بتایا کہ اسیران کا معاملہ ابھی بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جارہا ہے اور اسے صرف ممبران پارلیمان ہی نہیں بلکہ عوامی حمایتی تحریکوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ اسے روکا جاسکے۔
اسی تناظر میں حماس کے پولٹ بیورو کے رکن صلاح العروری نے قدس پریس کو مفاہمت کی راہ میں آںے والی مشکلات کے حوالے سے بتایا ہے۔ عروری کے مطابق امریکا اور اسرائیل نے فلسطینی مفاہمت کو روکنے اور فلسطینیوں کے درمیان تقسیم کو بڑھانے کے لئے دبائو بڑھانے کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔
عروری کا کہنا تھا کہ،” ہمیں یہ امید ہے کہ غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک سال کے اندر اندر سیکیورٹی اداروں میں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔”
عروری کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی نے آنے والے صدارتی الیکشنز میں اپنا نمائندہ نامزد نہیں کیا ہے۔ عروری نے مزید بتایا کہ حماس کا ایران کے ساتھ رابطہ پوری طرح ختم نہیں ہوا ہے۔ "ہم کسی بھی ایسی پارٹی سے تعلقات رکھ لیں گے جو کہ اسرائیل کے قبضے کے خلاف ہمارے فلسطینی حقوق کو مانتی ہوگی اور ہم پر اپنا ایجنڈا مسلط نہیں کرے گی۔”
انہوں نے آخر میں خبردار کیا کہ غزہ پر اسرائیل کی جانب سے کوئی نہیں جنگ قابض افواج کے لئے کئی سرپرائز لائے گی اور فلسطینی مزاحمت نے اپنی صلاحیتوں میں اضافے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں روکا تھا۔