یہ گھر جہاں فلسطینی تاریخ وثقافت کا امین ہے وہیں فلسطینی اتھارٹی کی مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ اس مکان کے درو دیوار تہذیب رفتہ کی زندہ نشانیوں سے بھرپور ہیں مگر یہ عمارت اب حکومت کی عدم توجہی کے باعث خستہ حالی کا شکار ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پرانے نابلس شہر میں داخل ہونے کے بعد محض چند قدم چلنے سے آپ 700 سال پرانے اس مکان تک پہنچ سکتے ہیں جو اپنے اندر صدیوں کی روایات اور نوادرات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ مکان شامی طرز تعمیر پرصدیوں پہلے تعمیر کیا مگر آج یہ حکومت کی مجرمانہ لاپرواہی کا واضح ثبوت ہے اور فلسطینی تاریخ وثقافت کی محافظ کہلانے والی فلسطینی اتھارٹی کے کردار پرسوالیہ نشان ہے۔
قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ آخر عجائب گھر نما مکان کا کوئی نا کوئی مالک بھی تو ہوگا۔ جی ہاں! ابو حسن جود اللہ اس مکان کے وارث ہیں۔ حارۃ الیاسمینیہ میں واقع یہ مکان حسن جود اللہ کو یہ مکان اس کے والد کی طرف سے دیا گیا مگرانہوں نے اسے ایک فلسطینی خاندان سے لیا تھا جو 100 سال سے اس مکان میں کرائے پر رہتا چلا آ رہا تھا۔
انیٹکا کا عجائب گھر
ابوحسن جود اللہ نے بتایا کہ جب وہ اس مکان میں منتقل ہوئے تو انہوں نے اس کی تاریخ پر نظر ڈالی۔ پتا چلا یہ مکان کوئی سات سو سال پرانا ہے اور شامی طرز تعمیر کے مطابق تعمیر بنایا گیا۔
انہوں نے مکان کی تاریخی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے تمام کمروں کو ایک عجائب گھر میں تبدیل کردیا Â اور اسے ’انٹیکا کا عجائب گھر‘ کا نام دیا۔ اس کے تمام کمروں اور گیلریوں میں پرانے زمانے میں استعمال ہونے والے برتن اور روز مرہ کی دیگر پرانی اشیاء رکھنا شروع کیں۔ مرور زمانہ کے ساتھ آلات اور برتنوں میں آنے والی بدتریج جدت کا بھی یہاں پراندازہ کیا جاسکتا ہے۔
پرانی چیزوں میں گھر میں استعمال ہونے والے برتن، پرانے شمع دان، آٹا گوندھنے کے برتن چھریاں تیز کرنے کی بھٹی، پرانے کپڑے، فرنیچر اور دیگر سامان شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ انٹیکا عجائب گھر میں رکھے گئے پرانے آلات ، برتن اور دیگر پرانی چیزیں عموما فلسطینیوں کے گھروں میں پائی جاتی ہیں۔ جس کے پاس پرانی جو چیز تھی وہ لا کریہاں رکھتا رہا یہاں تک کہ ایک اچھا خاصا میوزیم بن گیا۔
مشغلہ بھی پیشہ بھی
ابو حسن جود اللہ کو تاریخی مقامات، آثار قدیمہ اور گذرے زمانے کی چیزوں کو جمع کرنے اور انہیں محفوظ رکھنے کا غیرمعمولی شوق ہے۔ فلسطینی تہذیب و تمدن کے محافظ اور عاشق ابو حسن کا کہنا ہے کہ اس نے آغاز میں تاریخی نوادرات جمع کرنے کو پسندیدہ مشغلے کے طور پراختیار کیا تھا۔ آغاز میں انہیں مالی طور پرکافی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر اب وہ نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے ہیں بلکہ تاریخی نوادرات جمع کرنا ان کا پیشہ بھی بن چکا ہے جس کے ذریعے وہ رزق ہلال بھی کما رہے ہیں۔
وہ گھروں میں سجاوٹ کے لیے استعمال ہونے والی نوادرات کو جمع کرتے اور گاہکوں کو فروخت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگ زیادہ تر ان سے نابلس کا تاریخی شمع دان مانگتے ہیں۔ Â دور عثمانی کی نوادرات کی طرز پرآج بھی سجاوٹ کی اشیاء تیار کی جاتی ہیں۔ ان کے میوزیم میں رکھے گئے پرانے سامان میں بلاد شام سے لائے گئی لال ٹینوں میں ایک لال ٹین بھی موجود ہے۔ یہ لال ٹین عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کے تخت خلافت پر بیٹھنے کے 25 سال بعد فلسطین لایا گیا۔
دیگر پرانی چیزوں میں ایسی تختیاں موجود ہیں جن پر قرآنی آیات نقش کی گئی ہیں۔
ابو حسن نے بتایا کہ Â صدیوں پرانے مکان کو میوزیم بنانے میں ان کی اہلیہ ان کی معاون و مدد گار ہیں۔ اہلیہ بسمہ رمضان نے بھی اس گھر کے لیے کئی تاریخی نوادرات جمع کی۔