فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق نتائج کے اعتبار سے یہ نہایت خطرناک سازش ہے جس کا اصل مقصد مشرقی بیت المقدس میں رہنے والے فلسطینیوں پر عرصہ حیات مزید تنگ کرنا اور انہیں علاقہ چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔
رپورٹ میں فلسطینی محکمہ دفاع اراضی و مزاحمت یہودی آباد کاری کے حوالے سے بتایا ہے کہ بیت المقدس میں اسرائیلی میئر نیر برکات نے حال ہی میں ایک تقریب کے دوران پولیس، خفیہ ادارے شاباک اور مذہبی انتہا پسند گروپوں کی طرف سے مشرقی بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کا گھیرا تنگ کرنے کی سازشوں میں تعاون کا خیر مقدم کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی بلدیہ نے فلسطینی شہریوں پر اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا الزام عائد کرکے ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ جس فلسطینی خاندان کا کوئی فرد اسرائیلی پولیس کے خلاف احتجاج کرتے، سنگ باری کرتے یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے مزاحمت کرتے پایا گیا تو اس پورے خاندان کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے اس کا سماجی، معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے گا۔ ایسے فلسطینی خاندانوں کو شہری حقوق اور مراعات سے محروم کیا جائے گا اور ان کے مکانات مسمار کرتے ہوئے ان کی املاک ضبط کر لی جائیں گی۔
دفاع اراضی کمیٹی نے اسرائیلی بلدیہ کی اس سازش کو نہایت خطرناک قرار دیا ہے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں پر مزاحمت کے جھوٹے اور جعلی الزامات عاید کرنے کا اصل مقصد مشرقی بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کو وہاں سے نکل جانے پرمجبور کرنا ہے۔
کمیٹی نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو کے اس بیان کی بھی شدید مذمت کی ہے،جس میں انہوں نے تمام فلسطینی باشندوں کو اسرائیل کے عرب شہریوں کے مشابہ قرار دیا تھا۔
کمیٹی کی طرف سے فلسطینی شہریوں کی املاک اور قیمتی اراضی پرقبضے کے لیے فوجی احکامات کی آڑ میں سازشوں پر بھی سخت تنبیہ کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی انتظامیہ فوجی احکامات کے نفاذ کے ذریعے مال متروکہ قرار دے کر فلسطینیوں کی اراضی غصب کرنے کی سازشیں کر رہی ہے۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست کی طرف سے فلسطینیوں کی اراضی اور دیگر املاک کو متروکہ املاک قرار دے کر ان پر قبضہ کرنا عالمی قوانین کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔
