فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق فوج اور پولیس کے خصوصی دستوں کی فول پروف سیکیورٹی میں جمعرات اور جمعہ کی درمیانی 120 بسوں کے ذریعے ہزاروں یہودی مسجد ابراہیمی میں لائے گئے۔
دوسری جانب فلسطینی محکمہ اوقاف نے یہودی آباد کاروں کی غیرمعمولی تعداد کی مسجد ابراہیمی پریلغار کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کے سنگین نتائج پر سخت تنبیہ کی ہے۔ فلسطینی محکمہ اوقاف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی مسجد ابراہیمی پر مکمل تسلط قائم کرنے کے لیے یہودی آباد کاروں کی مذہبی رسومات کا سہارا لے رہا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے سنہ 1972ء کو یہودی آباد کاروں کے مسجد ابراہیمی میں داخلے کی اجازت دے دی تھی۔ یہاں تک کہ سنہ 1994ء میں مسجد میں نماز فجر کے دوران ایک یہودی دہشت گرد کے ہاتھوں نمازیوں کے قتل عام کے بعد مسجد ابراہیمی کو یہودیوں اور فلسطینی مسلمانوں کے لیے زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کردیا گیا تھا۔
اس کے بعد سے آج تک اسرائیلی فوج حرم ابراہیمی میں نمازوں سے قبل اذان پر اکثر اوقات پابندی عائد کرتی رہتی ہے۔ خاص طورپر یہودی آباد کاروں کی مذہبی تقریبات کے موقع پر فلسطینی شہریوں کو نہ صرف مسجد میں اذان سے روک دیاجاتا ہے بلکہ انہیں نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں داخل ہونے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔