فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسیران اسٹڈی سینٹر کی رپورٹ کے مطابق قید خانوں میں فلسطینیوں پر بہیمانہ تشدد اسرائیلی عدلیہ اور حکومت کی باضابطہ اجازت سے ہوتا ہے۔ معلومات کے حصول اور قیدیوں سے اقبالی بیانات کے حصول کے لیے تشدد کے 80 اقسام کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔
مرکز برائے اسیران اسٹڈی سینٹر کی طرف سے یہ رپورٹ انسداد تشدد کے عالمی دن 26 جون کے موقع پر جاری کی گئی ہے جو بین الاقوامی اداروں، عالمی برادری اورانسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی اسیران پر تشدد کے مکروہ حربوں کے استعمال میں فوج، انٹیلی جنس ادارے بالخصوص ’شاباک‘ کے تفتیش کار اور پولیس سب شامل ہیں۔ قیدیوں کو اذیتیں دینے کے لیے حکومت باضابطہ قانون سازی کرتی اور عدلیہ اس کی تشریح کرتے ہوئے پولیس کے ذریعے فلسطینیوں کو اذیتیں دینے کا حکم جاری کرتی ہے۔
انسانی حقوق کے مندوب ریاض الاشقر کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں فلسطینی قیدیوں پر المناک تشدد قانوناً درست ہے اور کسی بھی قیدی سے پوچھ تاچھ کے دوران تشدد کا کوئی بھی حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج اور خفیہ اداروں کے زیرانتظام قیدیوں پر وحشیانہ تشدد کا یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے اور اب تک سیکڑوں فلسطینیوں کو دوران حراست تشدد کر کے شہید کیا جا چکا ہے۔
تشدد کے 80 حربے
ریاض الاشقر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینیوں پر تشدد کے 80 حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیلی جیلوں میں تشدد کے نتیجے میں 71 فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے جب کہ مجموعی طورپر جیلوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد 207 بتائی جاتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حراستی مراکز میں ڈالے گئے 98 فی صد شہریوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ ابتدائی ایام میں تشدد انتہائی سخت ہوتا ہے جس میں بہت سے قیدیوں کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے روپ میں قصاب
ریاض الاشقر نے بتایا کہ اسرائیلی جیلوں میں تشدد کا ایک انوکھا حربہ ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر قیدیوں کے علاج کی آڑ میں انہیں اذیتیں پہنچاتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بار بار یہ دعویٰ کر چکی ہیں کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی اسیروں کے علاج کے لیے آنے والے ڈاکٹر ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک کرتےہیں۔ قیدیوں کو مسلسل بیدار رکھنے کے لیے انہیں ڈاکٹروں کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بعض ڈاکٹر قیدیوں سے اقرار جرم کرانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔