فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق عباس السید کو صہیونی فوج نے 8 مئی سنہ 2002ء کو حراست میں لیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے لیے اسرائیلی فوج اور خفیہ ادارے آٹھ ماہ تک مسلسل کوشش کرتے رہے۔ اس دوران ان پر متعدد بار قاتلانہ حملے بھی کیے گئے مگر وہ ان حملوں میں محفوظ رہے۔ انہیں غرب اردن کے شہر طولکرم کے ایک مکان سے حراست میں لیا گیا۔ گرفتاری سے قبل صہیونی فورسز نے ان کے مکان کا محاصرہ کیا اور دھمکی دی کہ وہ مکان کو بارود سے اڑا دیں گے۔ اس پر عباس السید نے رضاکارانہ طور پر اپنی گرفتاری پیش کر دی تھی۔
فلسطین اسیران اسٹڈی سینٹر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسیری کے بعد پانچ ماہ تک عباس السید کو اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کے ہاں بدترین اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر کئی مقدمات عائد کیے گئے جن میں باراک ہوٹل میں ہونے والے فدائی حملے میں معاونت کی ذمہ داری بھی عائد کی گئی۔ اس کارروائی میں 32 صہیونی جنہم واصل اور 150 زخمی ہوئے تھے۔ تمام الزامات میں مجموعی طور پر انہیں 35 بار عمر قید اور 50 سال اضافی قید کی سزا کا سامنا ہے۔
ایک دوسری کارروائی جسے اسرائیلی میڈیا میں ھشارون کے نام سے مشتہر کیا گیا تھا میں محمود المرمش نامی القسام کمانڈر نے فدائی کارروائی کی تھی میں بھی عباس السید کو معاونت کار قرار دیا گیا تھا۔ اس حملے میں پانچ یہودی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
دوران حراست بھی عباس السید پر متعدد مرتبہ قاتلانہ حملے کیے جا چکے ہیں۔ سنہ2012ء میں انہیں ایک ایسے ہی قاتلانہ حملے کا نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ انہیں اذیت ناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ان کے جسم کا بالائی حصہ بری طرح مفلوج ہو گیا تھا۔
عباس السید پیشے کے اعتبار سے کیمیکل انجینیر ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں جن میں مودہ کی عمر 18 سال اور عبداللہ کی 16 سال بیان کی جاتی ہے۔