فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق انسانی حقوق کی ٹیم کا کہنا ہے کہ منگل 19 جولائی 2016ء شام ساڑھے چھ بجے اسرائیلی فوجیوں نے شمالی بیت المقدس میں الرام کے مقام پر 10 سالہ محی الدین محمد صدقی صادق طباخی کو سیاہ رنگ کی مسام دار پلاسٹک کے خول میں لپٹی گولی سے تاک کر نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں طباخی شدید زخمی ہوگیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی بچے کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی فوجی الرام قصبے کو بیت المقدس سے الگ کرنے والی دیوار فاصل کے قریب کھڑے تھے۔ حملہ آور فوجی بارڈر پولیس کے اہلکاروں پر مشتمل تھے۔ انہوں نے ننھے محی الدین البطاخی کے سینے پر نشانہ بنا کر گولی ماری جس کےنتیجے میں بچہ شدید زخمی ہوا اور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا تھا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے شدید فائرنگ کی آوازیں سنیں اور ایسے لگا کہ اسرائیلی فوج نے کلاشنکوف سے گولیاں برسائی ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے جن بچوں پر گولیاں چلائی گئی تھیں اس میں کل پانچ بچے تھے جن میں سے بڑے کی عمر 15 سال تھی۔ یہ پانچوں بچے اسرائیل کی تعمیر کردہ یہودی نسلی دیوار کے قریب کھیل رہے تھے تاہم صہیونی حکام کا دعویٰ ہے کہ جن بچوں کو نشانہ بنایا گیا وہ یہودی آباد کاروں کی گاڑیوں پر سنگ باری کررہے تھے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ الرام قصبے کے شہریوں پر اسرائیلی فوج اسی طرح کی مسام دار سیاہ رنگ کی دھاتی گولیوں کا استعمال کرتی رہی ہے۔ فلسطینی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے صہیونی فوج کے ہاتھ میں یہ ایک خطرناک ہتھیار ہے۔ فلسطینی بچوں اور نہتے مظاہرین پر آنسوگیس کی شیلنگ بھی معمول کا حصہ ہوتی ہے۔ اس کے علاہ ’’پیپر‘‘ کے بدبودار پانی کا چھڑکاؤ بھی کیا جاتا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دس سالہ محی الدین الطباخی کو تین سے چار پیادہ فورس سے وابستہ صہیونی فوجیوں نے نشانہ بنایا۔ نیز شہید کو صرف ایک مسام دار گولی نہیں ماری گئی بلکہ اسے کئی گولیاں ماری گئی تھیں۔
ایک عینی شاہدنے بتایا کہ محی الدین الطباخی کو 30 فٹ کے فاصلے سےگولیاں ماری گئیں جو صہیونی فوج کی سفاکیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔