فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق حال ہی میں ایک سرکردہ یہودی ربی ’شلومو ملمید‘ نے فتویٰ نما ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں اس نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے پانی چشموں، کنوؤں، پانی کی نالیوں اور ٹینکیوں میں زہرملانا جائز ہے۔
اسرائیل میں مقامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’’بریک دی سائلنس‘ (خاموشی توڑیے) کی جانب سے بھی ایک بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہودی مذہبی رہنما فلسطینی شہروں اور قصبوں کو پہنچائے جانے والے پانی میں زہرملانے کی اجازت دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہودی مذہبی رہنماؤں کی جانب سے اجازت دیے جانے کے بعد انتہا پسند یہودیوں نے پانی میں زہرملانے پر غور شروع کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں کوئی سنگین انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔
اسرائیلی انسانی حقوق گروپ نے حکومت اور متعلقہ اداروں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ یہودی فتووں کی روشنی میں انتہا پسندوں کو فلسطینیوں کے پانی میں زہرملانے کی کسی بھی گھناؤنی سازش کو سختی سے روکیں ورنہ اس کے نتیجے میں بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
’بریک دی سائلنس‘ کے ایک ذمہ دار یہودا شاؤل نے بتایا کہ فلسطینیوں کے پانی کے وسائل میں زہرملانے کے جواز کے حق میں فتویٰ فلسطینیوں کو وہاں سے ھجرت کرنے پرمجبور کرنے کا ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ ان علاقوں پر یہودی آباد کاروں کو آباد کیا جا سکے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کے پانی کے وسائل میں زہرملانے کا مذکورہ فتویٰ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل مقبوضہ فلسطین کے صفد شہر میں رہنے والے چیف یہودی ربی اسحاق لیفانون نے بھی ایسا ہی ایک فتویٰ دے رکھا ہے۔
ادھر فلسطین میں دفاع اراضی اور مزاحمت یہودی آباد کاری شعبے کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہودی مذہبی رہنماؤں کی طرف سے فلسطینیوں کے پانی کے وسائل میں زہر ملانے کا فتویٰ نتائج کے اعتبار سے ایک بھیانک عمل ہے۔ یہ فتویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی حکومت نے غرب اردن کی یہودی آبادیوں کے لیے 74ملین شیکل کا اضافی بجٹ منظور کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہودی مذہبی پیشواؤں کے تازہ فتوؤں کے بعد غرب اردن میں رہنے والے فلسطینی شہریوں میں سخت خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ عوامی حلقوں کی جانب سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور عالمی برادری سے اس نوعیت کے اشتعال انگیز فتاویٰ کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔