مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیل کے عبرانی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ صہیونی ریاست کے حکمراں اتحاد میں یہودی آباد کاری کے معاملے پر شدید اختلافات سامنے آئے ہیں جس کے بعد حکمران اتحاد میں پھوٹ پڑے کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں ۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی ذرائع ابلاغ ان دنوں حکمراں اتحاد میں پھوٹ کے خدشات ظاہر کررہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکمراں اتحاد میں شامل ’جیوش ہوم‘ کے سربراہ اور کابینہ کے سینیر وزیر نفتالی بینیٹ نے حال ہی میں تجویز دی ہے کہ وہ جلد پارلیمنٹ میں ایک نیا بل پیش کریں گے جس میں غرب اردن کے شہر بیت لحم اور بیت المقدس کے درمیان قائم یہودی کالونی ’معالیہ ادومیم‘ میں اسرائیل کا سرکاری قانون نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ جب کہ وزیراعظم معالیہ ادومیم میں صہیونی ریاست کا قانون لاگو کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کرنے سے گریزاں ہیں۔ نفتالی بینیٹ کے اس بیان کے بعد حکمراں اتحاد میں کشیدگی کی فضاء پائی جا رہی ہے۔جیوش ہوم کے سربراہ نفتالی بینیٹ نے حال ہی میں مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ ’ٹوئٹر‘ پر پوسٹ کردہ بیان میں کہا ہے کہ وہ Â معالیہ ادومیم کالونی کو اسرائیل کی قانونی عمل داری میں لانے کے خواب کوصورت میں شرمندہ تعبیر کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ معالیہ ادومیم کالونی کو اسرائیل کی قانونی عمل داری میں لانا دیگر یہودی کالونیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا نقطہ آغاز ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ وزیراعظم نیتن یاھو اس تجویز کی مخالفت نہیں کریں گے۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ حکومت ہمارے تیار کردہ نقشہ راہ پرعمل درآمد کرتی ہے یا نہیں۔
مسٹر بینیٹ کا کہنا تھا کہ کابینہ میں شامل تمام وزراء ان کی تجویز کی حمایت کریں گے اور معالیہ ادومیم کو اسرائیل میں ضم کرنے کے مطالبے کو آگے بڑھانے Â میں ’جیوش ہوم‘ کا ساتھ دیں گے۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی نے حال ہی میں وزیر قانون وانصاف ’ایلیٹ شاکیڈ‘ کا ایک بیان نشر کیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ غرب اردن کی دیگر کالونیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے لیے معالیہ ادومیم میں صہیونی ریاست کے قانون کا نفاذ کریں گے۔ اس طرح اوسلو معاہدے کے تحت سیکٹر C میں آنے والےغرب اردن کے تمام علاقوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کا آغاز ہوجائے گا۔
صہیونی وزیر انصاف کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے علی الرغم عالمی برادری کو اپنی شمالی سرحدوں کی حدود پر قائل کرے گا۔
حال ہی میں اسرائیل Â کے عبرانی ریڈیو پر ایک رائے عامہ کا جائزہ لیا گیا تھا جس میں حصہ لینے والے 39 فی صد صہیونیوں نے غرب اردن کو اسرائیل کا حصہ بنانے کی تجویز کی حمایت کی تھی۔ اس سروے میں 31 فی صد یہودیوں نے خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام Â اور یہودی کالونیوں کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کی حمایت کی تھی جب کہ 30 فی صد یہودیوں نے سنہ 1967ء کی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر صہیونی ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔