فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق امریکی امن اسکیم کے اعلان میں تاخیرایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دوسری جانب حالیہ ہفتوں کے دوران امریکی انتظامیہ اور فلسطینیوں کے درمیان بھی کشیدگی پائی جا رہی ہے۔ امریکا نے مرحلہ وارفلسطینیوں کے خلاف مختلف اقدامات کیے ہیں۔ ان میں آخری اور تازہ ترین اقدام واشنگٹن میں فلسطین لبریشن موومنٹ یا تنظیم آزادی فلسطین کے دفاتر بندکرنا اور فلسطینی پناہ گزینوں کو دی جانے والی مالی امداد بند کرنا ہے۔
ایک امریکی عہدیدار نے کہا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کا ’حق واپسی‘ تنازع کے آخری اور حتمی حل کا حصہ ہوگا مگر ہم تمام پناہ گزینوں کے مسائل کے منصفانہ حل کے لیے متبادل تجاویز پر بھی غور رکرہےہیں‘۔
امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پڑوسی ملکوں نے بھی فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد بند کرنے کو ’حق واپسی‘ کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دیا ہے۔31اگست 2018ء کو امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ ’اونروا‘ کو کئی سال سے دی جانے والی امداد کو بلا توقف دیا جاتا رہا اور اس سے مستفید ہونے والے گروپوں میں بھی اضافہ ہوا، مگر اب یہ مثال مزید آگے نہیں چلے گی۔ اونروا امداد حاصل کرنے کے باوجود کئی سال سے مالی بحران کا شکار ہے۔
فلسطینیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل اور امریکا کی اسرائیل نواز حکومت مل کر فلسطینی پناہ گزینوں کےحق واپسی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد روکے جانے کے حوالے سے امریکی مختلف دعوے اور جواز پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نے جنوری 2018ء کو بیرون ملک دی جانے والی امداد پر نظر ثانی کا حکم دیا تھا۔ اس امداد میں فلسطینی پناہ گزینوں کو ملنے والی امداد بھی شامل تھی۔ سابق امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن نے ستمبر میں رواں مالی سال کے اختتام پر 60 ملین پاؤنڈ کی رقم جاری کرنے کی اجازت دی تھی۔مگر امریکی حکام کے درمیان فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کے تعطل کے باعث یہ امداد جاری نہیں کی جاسکی۔ اس امداد کے جاری کرنے یا روکے جانے کے حوالے سےامریکی انٹیلی جنس حکام، محکمہ خارجہ، دفاع اور امریکی انتظامیہ کے درمیان کافی لے دے بھی ہوتی رہی ہے۔