فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی مجسمہ ساز ایتائی زلیط نے صحافیوں کو بتایا کہ اُس نے تین ماہ کی محنت کے بعد شہر کے رابن اسکوائر پر 4 میٹر بلند یہ مجسمہ اس لیے نصب کروایا تھا تاکہ اسرائیل میں آزادی اظہار کی حد کو جانچا جا سکے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی حکومت اور فن کاروں کے درمیان وزیر ثقافت کے اقدامات کے حوالے سے اس وقت ایک طرح کی "ثقافتی جنگ” جاری ہے۔ اسرائیلی خاتون وزیر میری ریجیو نے اُن اداروں کے لیے حکومتی فنڈز کو روک دیا ہے جو ریاست کے اپنی وفاداری کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔
مجسمے کی تنصیب کے بعد ریجیو نے فیس بک پر تبصرہ کرتے کہا کہ "یہ نیتن یاہو کے لیے نفرت کا اظہار ہے”۔ تل ابیب کی بلدیہ کے ذمے داروں کے مطابق مجسمے کو ہٹا دیا جائے گا۔
تل ابیب کے رابن اسکوائر پر راہ گیر صبح جلد جمع ہو جاتے ہیں جہاں وہ مجسمے کی تصاویر لے کر اس بات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں کہ آیا اس مجسمے سے نیتنیاہو کی تضحیک کا اظہار ہوتا ہے یا پھر یہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کے لیے اعزاز کا باعث ہے۔ مجسمے کو "بی بی” کا نام دیا گیا ہے ، اس نام سے نیتن یاہو کو بچپن میں پکارا جاتا تھا۔