فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے اوباما انتظامیہ کے دور حکومت کے خاتمے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے امریکی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے سے چند ہفتے قبل اپنے ایک خطاب میں کہا کہ واشنگٹن نے اسرائیل مخالف قرارداد کو اس لئے ویٹو نہیں کیا تاکہ دو مملکت کے قیام کی تشکیل کے لئے کسی حل تک پہنچنے کا امکان باقی رہے۔ انہوں نے کہا کہ باراک اوباما اسرائیل کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے ہمیشہ پابند رہے ہیں۔
جان کیری نے کہا کہ گذشتہ برسوں کے دوران ہماری بے پناہ کوششوں کے باوجود اس وقت بھی دو حکومتوں کے قیام کے منصوبے کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم پہلے کی طرح اس قرارداد کو بھی ویٹو کردیتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ امریکا اسرائیل کو فلسطینی علاقوں میں وسیع پیمانے پر بستیاں قائم کرنے کی اجازت دے رہا ہے اور یہ امریکا کی اصولی پالیسی کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قرارداد اسرائیل کو الگ تھلگ نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ بستیاں تعمیر کرنے کی اسرائیلی پالیسی نے ہی علاقے میں امن و صلح کو غیر ممکن بنا دیا ہے ۔ جان کیری نے کہا کہ اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ دائیں بازو کی حکومت یعنی بنیامین نتین یاہو کی حکومت بھی دو مملکت کے قیام کے منصوبے کی حمایت کرتی ہے لیکن اس حکومت کی پالیسی صرف ایک ہی حکومت کی تشکیل کی راہ پر منتج ہورہی ہے۔
جان کیری نے کہا کہ میں کھل کرکہنا چاہتا ہوں کہ اگر اسرائیل ایک حکومت کی تشکیل کی جانب قدم بڑھائے گا تو عربوں کے ساتھ وہ کبھی بھی صلح نہیں کرسکے گا ان کا دعوی تھا کہ میں نے بہت سے عرب سربراہوں سے بات کی ہے اور ان سب کا کہنا تھا کہ اگر مسئلہ فلسطین حل ہوجائے تو وہ اسرائیل کے ساتھ مختلف قسم کے تعلقات برقرار کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جان کیری نے کہا کہ بستیوں کی تعمیر اور اس کے جاری رہنے کا اسرائیل کی سیکورٹی سے کوئی ربط نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان صلح کی برقراری کی کوشش کررہے ہیں وہ بستیوں کی تعمیر کے نتیجے میں امن مذاکرات کو لاحق خطرات کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔
جان کیری نے زور دے کر کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسرائیل انیس سو سڑسٹھ کی سرحدوں کی جانب واپس لوٹ جائے۔ ان کا کہنا تھاکہ دونوں فریقوں کی مرضی سے سرحدوں کاتعین ضروری ہے۔ جان کیری نے یہ بھی دعوی کیا کہ بیت المقدس کو دونوں حکومتوں کا دارالحکومت اور اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے۔ امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورتحال ، تشدد ، دہشت گردی ، اشتعال انگیز اقدامات، بستیوں کی تعمیر اور نہ ختم ہونے والے غاصبانہ قبضے نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن و صلح کی امیدوں کو ختم کردیا ہے اور یہ وہ صورتحال ہے کہ اکثریت جس کے حق میں نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس قرارداد کو چودہ ووٹوں سے منظورکرلیا تھا جس میں فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے ذریعے صیہونی بستیوں کی تعمیر پر روک لگانے کا مطالبہ کیا تھا – امریکا نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا – اس قرارداد میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ صیہونی بستیوں کی تعمیرپرمبنی اسرائیلی اقدامات سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں امن کا عمل معطل ہو کر رہ گیا ہے ۔