لندن – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) برطانوی حکومت کے ایک مصدقہ ذریعے کا کہنا ہے کہ حال ہی میں اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) میں اسرائیلی ریاست کا بائیکاٹ کرنے والے تحریک کے کارکنان کوصہیونی ریاست میں داخلے کا قانون اس لیے منظور کیا گیا تاکہ اسرائیل کو درپیش معاشی مشکلات کم کرنے میں مدد لی جاسکے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق برطانوی اخبار’ٹائمز‘ نے اپنی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل کو عالمی بائیکاٹ تحریک کے سپورٹروں کو اس لیے اسرائیل آنے سے روکنے کا قانون منظور کیا گیا ہے تاکہ صہیونی ریاست کو درپیش معاشی مشکلات کم کرنے میں مدد لی جاسکے۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ کے قانون کی منظوری سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پراسرائیل کے معاشی بائیکاٹ اوریہودی کالونیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریکوں نے صہیونی ریاست کو معاشی طور پر بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ عالمی سطح پر اسرائیلی مصنوعات کی طلب میں غیرمعمولی کمی آچکی ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے ذریعے بائیکاٹ تحریک کے حامیوں کو نکیل ڈالنے کے لیے انہیں صہیونی ریاست کے ویزے جاری کرنے میں رکاوٹ کھڑی کی گئی ہے۔
برطانوی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی کنیسٹ میں جب بائیکاٹ تحریک کے کارکنان کو ویزے جاری کرنے کی ممانعت کے مسودہ قانون پر بحث جاری تھی تو اس موقع پر اسرائیلی ارکان کنیسٹ نے تسلیم کیا کہ بائیکاٹ تحریک ایک بین الاقوامی تحریک ہے۔
اس تحریک کو دباؤ میں لانے کے لیے اسرائیل کئی متبادل آپشن استعمال کررہا ہے۔ ان میں بائیکاٹ کی حمایت کرنے والے کارکنان کو اسرائیل کے ویزے جاری کرنے پر پابندی کا تازہ قانون بھی شامل ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک نئے مسودہ قانون پر دوسری اور تیسری رائے شماری کرتے ہوئے اسرائیلی ریاست کا بائیکاٹ کرنے والے عالمی کارکنوں کو صہیونی ریاست میں داخلے پر پابندی عائد Â کی ہے۔
یہ قانون اب تک نافذ رہنے والے اس قانون کے برعکس ہے۔ پہلے سے نافذ العمل قانون کے تحت اسرائیلی ریاست کا بائیکاٹ کرنے والے کارکنوں کو فوری طور پر ویزہ جاری رکنے کی اجازت حاصل تھی مگر نئے قانون کے تحت عالمی بائیکاٹ کی تحریک پر اثر انداز ہونے کے لیے صہیونی ریاست نے نیا قانون منظور کیا ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی حکمراں اتحاد میں شامل ’جیوش ہوم‘ نامی مذہبی سیاسی جماعت نے ایک نیا مسودہ قانون تیار کرنے کے بعد اسے چند ہفتے قبل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا۔ اس آئینی بل میں سفارش کی گئی تھی Â کہ اگر اسرائیل کا کوئی نجی ادارہ یا تنظیم یہودی آباد کاری Â یا ان کالونیوں میں تیار ہونے والی مصنوعات کا بائیکاٹ کرے تو اس ادارے یا تنظیم کا بھی مکمل تجارتی بائیکاٹ کیا جائے اور اسے ریاست کی طرف سے حاصل مراعات واپس لی جائیں۔
یہ مسودہ قانون رکن کنیسٹ شولی معلم نے پیش کیا تھا اور آئندہ چند روز میں اس مسودے پر بحث کی جائے گی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل اسرائیلی پارلیمنٹ عالمی سطح پر اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والے کارکنان کے حوالے سے بھی ایسا ہی قانون منظور کرچکی ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کی داخلہ کمیٹی نے ایک نئے مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت عالمی سطح پر اسرائیل کے بائیکاٹ میں سرگرم رہنے والے کارکنان کو صہیونی ریاست کا ویزہ جاری نہیں کیا جاسکے گا۔
رپورٹ کے مطابق عالمی بائیکاٹ تحریک کے کارکنان پردباؤ ڈالنے کے لیے یہ بل حال ہی میں ’بزلئل سموطریچ‘ نامی رکن پارلیمنٹ نے پیش کیا تھا جس میں سفارش کی گئی تھی کہ اسرائیلی بائیکاٹ کی تحریک چلانے والے عالمی کارکنان کو صہیونی ریاست میں داخل ہونے سے روکا جائے۔