مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیل کی ایک خاتون وزیر نے حال ہی میں مقبوضہ بیت المقدس پر پانچ جون 1967ء کے روز صہیونی فوج کے قبضے کو’بیت المقدس کی آزادی‘ کا دن قرار دینے کی اصطلاح استعمال کی ہے جس پرصہیونی حلقوں کی جانب سے بھی شدید تنقید سامنے آئی ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے عبرانی اخبار’یدیعوت احرونوت‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ خاتون وزیرثقافت میری ریگیو نے حال ہی میں ’آزاد القدس‘ کی اصطلاح استعمال کی جس پر اسرائیل کے بائیں بازوں کے سیاسی حلقوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے یہ اصطلاح بیت المقدس پر قبضے کے 50 سال مکمل ہونے کی مناسبت سے کیا ہے۔اخبار کے مطابق ماضی میں اسرائیل کی تمام حکومتوں کی بیت المقدس کے بارے میں یہ پالیسی رہی ہے کہ القدس کے لیے ’آزادی‘ کے بجائے مشرقی اور مغربی بیت المقدس کو متحد کرنے کی اصطلاح استعمال کی جائے۔ مگر کسی وزیر کی جانب سے پہلی بار بیت المقدس کے لیے آزادی کی اصطلاح استعمال کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میری ریگیو نے مذہبی فلسفے کی بنیاد پر القدس کی آزادی کا سلوگن اختیار کیا کیونکہ اسرائیل کے مذہبی گروپ سنہ1967ء کی چھ روزہ جنگ کو القدس کی آزادی کی جنگ قرار دیتے ہوئے یہ من گھڑت افسانہ تراشتے ہیں کہ اس جنگ میں بیت المقدس کو غیرملکی قابض قوتوں سے آزادی دلائی گئی تھی۔
اسرائیلی خاتون وزیر کا کہنا ہے کہ وہ اس اصطلاح کا استعمال بیت المقدس پر قبضے کے پچاس سال مکمل ہونے اور اراض فلسطین پرقبضے کے 69 سال پورے ہونے پر استعمال کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ بیت المقدس یہودی مذہبی نظریات کے مطابق اسرائیلی ریاست کا ابدی دارالحکومت ہے اور اس کی تقسیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسری جانب اسرائیل کے بائیں بازو کے سیاسی حلقوں نے میری ریگیو کے موقف کو مسترد کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ القدس کی آزادی کی اصطلاح اسرائیل کے روایتی موقف سے انحراف ہے۔ کل کو دنیا بھرمیں اسرائیلی سفارت خانوں اور سرکاری مکتوبات میں بھی یہ اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے۔