(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم "بتسلیم” نے فوج کے جوڈیشل ادارے کے ساتھ تعاون کا بائیکاٹ کرتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث فوجیوں کے خلاف قانونی کارروائی نہ ہونے پر سخت احتجاج کیا ہے۔
Â
بتسلیم کی جانب سے جاری کردہ ’ہم انجیر کا پتا نہیں بنیں گے‘ کے عنوان سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تنظیم نے فوج کے عدالتی شعبے کے ساتھ اس لیے تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا ہے کیونکہ فلسطینیوں پر تشدد میں ملوث فوجی اہلکاروں سے کوئی پوچھ تاچھ نہیں کی جاتی۔
یہودی انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سنہ 2000ء کے بعد اس نے فوجی عدالتوں میں فلسطینیوں سے غیر انسانی سلوک کی 740 درخواتیں دیں مگر وہ تمام درخواستیں ردی کی ٹوکری کی نذر کردی گئیں۔ انہی میں تین سال قبل اسرائیلی فوج کی وحشیانہ تشدد سے شہید ہونے والی فلسطینی طالبہ لبیٰ الحنش کا کیس بھی شامل تھا جسے اسرائیلی فوج نے نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا تھا مگر عدالتوں کی جانب سے حنش کے قاتلوں کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ساڑھے سات سو شکایات میں سے صرف 25 پر کارروائی کی گئی مگر وہ بھی ادھوری چھوڑ دی گئی۔
خیال رہے کہ اسرائیلی عدلیہ پرفوجیوں کے فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کی پردہ پوشی کا الزام پہلی بار سامنے نہیں آیا بلکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں آئے روز فلسطینیوں کے قتل عام میں ملوث اسرائیلی فوجیوں کے خلاف قانونی کارروائی کے مطالبات کرتی ہیں۔ تاہم اسرائیل کے اندر کے انسانی حقوق کے کسی ادارے کی جانب سے اسرائیلی ملٹری پراسیکیوٹر کے خلاف اس نوعیت کا ٹھوس موقف پہلی بار سامنے آیا ہے۔
اسرائیلی انسانی حقوق گروپ بتسلیم کی خاتون ترجمان ساریت میخائلی کا کہا کہنا ہے کہ ہمارا فوجی عدالتی نظام حقائق کو مسخ اور توڑ مروڑ کر پیش کرنے، غیر منصفانہ کارروئیاں کرنے، شکایات کو سردخانے میں ڈالنے اور فلسطینی شہریوں کے خلاف جرائم کی حوصلہ افزائی کا مرتکب ہو رہاہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم ایک عرصے سے واویلا کررہے ہیں کہ جرائم میں ملوث فوجیوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے مگر ہمارے مطالبات نہیں مانے جا رہے ہیں۔