مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) گذشتہ روز اسرائیلی پارلیمنٹ نے فلسطینی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر پابندی کے متنازع قانون پر ابتدائی رائے شماری کی گئی مگر اس موقع پر عرب کمیونٹی کے نمائندہ ارکان کنیسٹ نے اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی کنیسٹ میں پیش کردہ قانون کے دو الگ الگ حصے ہیں۔ ایک حصے میں فلسطینی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے اور دوسرے میں یہودی معابد میں لاؤڈ اسپیکروں پر جرس اور سیٹیاں بجانے کی ممانعت کی سفارش کی گئی ہے۔کنیسٹ میں یہ متنازع قانون گذشتہ کئی ماہ سے منظور کرانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ ترمیم کے بعد یہ قانون ایک بار پھر پارلیمنٹ میں رائے شماری کے لیے پیش کیا گیا۔ ابتدائی رائے شماری میں منظور کے بعد اب اس کی حتمی منظوری کے لیے دوسری اور تیسری رائے شماری کےعمل سے گذارا جائے گا۔
اذان پر پابندی کے متنازع قانون کی منظوری کے بعد عرب متحدہ محاذ کے چیئرمین اور اسرائیلی کنیسٹ کے رکن ایمن عودہ نے مسودہ قانون کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دی۔
فلسطینی خبر رساں ادارے’معا‘ کے مطابق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایمن عودہ نے کہا کہ اس قانون کا تعلق ماحولیات سے ہے اور نہ ہی شور وغل روکنے کے لیے ہے۔ یہ نسل پرستانہ قانون مسلمان عرب شہریوں اور فلسطینیوں کے خلاف صہیونی ریاست کی مذہبی انتہا پسندی کی بدترین شکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اذان پر پابندی کا قانون ’النکبہ‘ (فلسطین پر ناجائز قبضے) اور فلسطینیوں کو غلام بنانے کے ظالمانہ قوانین کا تسلسل ہے۔ اگر یہ قانون منظور ہوتا ہے تو وہ اس کی پابندی نہیں کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نہ تو اذان پر پابندی کا قانون تسلیم کرتے ہیں اورنہ ہی فلسطینیوں کے مکانات مسماری کا قانون تسلیم کریں گے۔ اس طرح کے تمام قوانین فلسطینیوں اور عرب قوم کے خلاف اسرائیل کی نسل پرستی کا واضح ثبوت ہیں۔