فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے ڈونلڈ ٹرمپ کی 20 جنوری کو حلف برداری کے بعد یہودی آبادکاروں کے لیے اس طرح کے دوسرے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ سابق صدر براک اوباما کی انتظامیہ کے دور میں اس کو اس طرح کے یکے بعد دیگرے اعلانات کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔
اسرائیلی وزارت دفاع نے منگل کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ اس اقدام کا مقصد نئے مکانوں کی مانگ کو پورا کرنا ہے تاکہ روزمرہ زندگی میں نظم و ضبط کو برقرار رکھا جاسکے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ زیادہ تر تعمیرات پہلے سے موجود یہودی آبادکاروں کی ان بستیوں اور بلاکوں ہی میں کی جائیں گی جنھیں اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی امن سمجھوتے کی صورت میں اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے اس منصوبے کی مزید تفصیل جاری کی ہے جس کے مطابق ان میں سے زیادہ تر مکانات موجودہ بلاکوں سے باہر نئی اراضی پر تعمیر کیے جائیں گے۔
اس وقت اسرائیل کے زیر قبضہ دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں مختلف شہروں اور بستیوں میں قریباً ساڑھے تین لاکھ یہودی آباد کار رہ رہے ہیں۔ مزید دو لاکھ مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں رہ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ مغربی کنارے میں پہاڑیوں پر یہود کی ایک سو سے زیادہ چھوٹی بڑی بستیاں ہیں۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں بیت المقدس ،غرب اردن اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس نے بعد میں بیت المقدس کو اپنی ریاست میں ضم کر لیا تھا مگر اس اقدام کو امریکا سمیت عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی ہے اور ان کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔
اسرائیل تورات اور زبور کے حوالوں سے بیت المقدس کو یہودیوں کے لیے خاص شہر قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہودیوں کو اس شہر میں کہیں بھی بسیرا کرنے کی اجازت ہے۔ وہ یروشلم کو اپنا ابدی دارالحکومت بھی قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینی اس مقدس شہر کو اپنی مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔
فلسطینیوں نے اسرائیل کے اس نئے منصوبے پر اپنے فوری ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے لیکن وہ غرب اردن میں یہودی آبادکاروں کے لیے تعمیرات کی شدید مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کا عالمی برادری سے یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ وہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے ایک ڈیڈ لائن مقرر کرے اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قائم یہودی بستیوں سے مصنوعات کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کردے۔