فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سلامتی کونسل میں منظور کی گئی قرارداد کے صہیونی معیشت پربھی گہرے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اگر اس قرارداد پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو متنازع کالونیوں میں قائم کردہ اسرائیلی بنکوں اور مالیاتی اداروں کو بھی عالمی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیرقانونی قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان پرپابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
عبرانی اخبار معاریف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد اسرائیل کے لیے معاشی پہلو سے بھی باعث تشویش ہے۔ خصوصا قرارداد میں وضع کردہ اصولوں اور مطالبات پر عمل درآمد کی صورت میں یہودی کالونیوں میں قائم کردہ اسرائیلی بنکوں کی شاخوں کو سخت دباؤ اور بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر امریکا کی نئی حکومت نے بھی سلامتی کونسل کی قرارداد پرعمل درآمد کرایا تو اس کے نتیجے میں امریکا سے اسرائیل کو آباد کاری کی مد میں حاصل ہونے والی امداد بھی کم ہوجائے گی جوکہ اس وقت 3 ارب 80 کروڑ ڈالر سالانہ ہے۔
معاریف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت یہودی کالونیوں میں ڈیکاؤنٹ، لیومی اور ھبوعلیم‘ نامی تین اسرائیلی بنکوں کی شاخیں قائم ہیں اور یہ شاخیں یہودی کالونیوں کے اندر ہونے کے باوجود عالمی سطح کے کھاتوں میں لین دین کرتی ہیں۔
ان بنکوں کی شاخیں امریکا کے شہر نیویارک، برطانیہ کے لندن اور سوئٹرز لینڈ بھی موجود ہیں۔ عالمی سطح پر پابندیوں کی صورت میں صہیونی ریاست کے بنک براہ راست متاثر ہوسکتے ہیں۔
اس سے قبل عالمی سطح پر جاری بائیکاٹ کی تحریک نے صہیونی ریاست کی متعدد کمپنیوں کو یہودی کالونیوں میں اپنے کارخانے ختم کرنے پر مجبور کیا۔ ان میں ’سوڈا اسٹریم‘ کمپنی ’معالیہ ادومیم‘ کالونی میں Â کام کررہی تھی۔ عالمی دباؤ کے بعد اس کمپنی نے اپنے کارخانے جزیرہ نما النقب منتقل کردیے تھے۔ اسی طرح عالمی کمپنی’یونی لیور‘ کو بھی ’ارئیل‘ کالونی میں قائم اپنے کارخانے وہاں سے ہٹانے پر مجبور کردیا تھا۔