واضح رہے کہ چند روز قبل ایک خبر نے دنیا بھر میں شدید بے چینی پیدا کر دی تھی جس میں گوگل کی جانب سے دنیا کے نقشہ سے فلسطین کو ہٹا کر اسرائیل لکھ دیا گیا تھا تاہم دنیا بھر میں فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل تحریکوں اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا جبکہ سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر بھی گوگل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بین الاقوامی سرچ انجن گوگل کے ترجمان کی جانب سے بین الاقوامی نیوز ویب سائٹ ’’مانڈویس ‘‘ کو بھیجے گئے ای میل پیغام میں گوگل نے سرچ انجن میں فنہ خرابی اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ نقشہ میں فلسطین کے مغربی کنارے اور غزہ کا نام موجود تھا تاہم فنی خرابی کے باعث یہ مسئلہ پیش آیا ہے، اسی پیغام میں جہاں ایک طرف گوگل نے اپنے سرچ انجن میں فنی خرابی کا اعتراف کیا ہے وہاں ساتھ ہی اس بات کا اعلان بھی کیا ہے کہ فلسطین کا نام پہلے کبھی نقشہ میں موجود ہی نہ تھا البری ویسٹ بینک اور غزہ کا نام موجود ہے۔
گوگل کی جانب سے اس خبر کے سامنے آنے کے بعد ماہرین اور تجزیہ نگاروں نےایک مرتبہ پھر گوگل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں دنیا کے بیشتر ممالک نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور فلسطین پر اسرائیلی قبضہ اور فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی مذمت جاری رکھی ہوئی ہے وہاں ایک بین الاقوامی سرچ انجن گوگل کی جانب سے فلسطین کو سرے سے تسلیم ہی نہ کرنا انصاف کے تقاضوں کے بر خلاف ہے ، ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے گوگل کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ گوگل کا قیام 1998میں ہوا جبکہ فلسطین پر اسرائیل سنہ1948میں قابض ہوا ہے اور پوری دنیا اسرائیلی کے غاصبانہ قبضے کو غیر قانونی قرار دیتی ہے تاہم گوگل کو فی الفور فلسطین کو نقشہ میں وضع کرے تا کہ فلسطین سمیت دنیا بھر میں گوگل کے خلاف پائی جانے والی شدید بے چینی کا خاتمہ ہو سکے۔
اسی طرح ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے گوگل سے سوال کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح اسرائیل نے فلسطین پر غاصبانہ تسلط کیا ہے تو کیا گوگل فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ تسلط کو جائز تصور کرتا ہے؟اگر ایسا نہیں تو گوگل کو غیرجانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے حق میں جانبداری کر کے اپنی مقبولیت پر سوالیہ نشان آنے سے محفوظ رکھنا چاہئیے۔