(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیلی پارلیمنٹ کی آئینی کمیٹی کی جانب سے منظوری کے بعد فلسطینی مزاحمت کاروں کو عمر قید کی سزا دلوانے سے متعلق ایک متنازع قانون اب صہیونی ریاست کا باقاعدہ حصہ بن گیا ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق گذشتہ روز اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کی آئینی کمیٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے کیس فوجی عدالتوں میں لے جانے اور معمولی مزاحمت کی پاداش میں کم سے کم سزا عمر قید مقرر کرنے کا قانون پیش کیا گیا۔مذکورہ مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت اسرائیل کے سنگین خطرہ ہے اور مزاحمت میں ملوث فلسطینیوں کو سنگین نوعیت کی سزائیں دی جائیں گی۔
رپورٹ کے مطابق فلسطینی مزاحمت کاروں کو عمر قید کی سزا دینے کا قانون دراصل فلسطینیوں کو اسرائیل کے خلاف پرتشدد کارروائیوں سے روکنا ہے۔ فی الحال مزاحمت کاروں کو عمر قید کی سزا دینے کی منظوری دی گئی ہے جب وزیردفاع آوی گیڈور لائبرمین اس شرط پرحکومت کا حصہ بنے ہیں کہ وہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو سزائے موت دینے کا قانون منظور کرنے کے لیے قانون سازی کرے گی۔
اس نئے قانون میں فلسطینیوں کی جانب سے مزاحمتی کارروائیوں کو’’دہشت گردی‘‘ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اسرائیلی مفادات پرحملے کرنے والوں کے ساتھ انسداد دہشت گردی قانون کے تحت نمٹا جائے گا اور اس قانون کے تحت مزاحمتی کارروائیوں کے الزام میں گرفتار افراد کو 30 سال تک قید کی سزا دی جاسکے گی۔
نئے قانون میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے اور مزاحمت کاروں کی معاونت کو برابر سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔ دونوں کو یکساں نوعیت کی سزا دی جاسکے گی۔
کسی فلسطینی مزاحمتی تنظیم کی قیادت کرنے کے جرم میں کم سے کم سزا ایک بار عمر قید ہوگی۔ اس کے علاوہ مزاحمت کاروں کو اسلحہ فروخت کرنے، کسی مزاحمتی تنظیم میں شمولیت اختیار کرنے، فدائی کارروائیوں اور عسکری تربیت فراہم کرنے کے ملزم کو بھی سنگین سزائیں دی جائیں گی۔
نئے قانون میں اسرائیلی سلامتی کے وزیر، وزیراعظم، داخلی سلامتی کے ذمہ داروں اور عدالتوں کو مزید با اختیار بنایا گیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی پارلیمنٹ میں شامل عرب ارکان پر مشتمل ’’عرب الائنس‘‘ نے نئے قانون کو مسترد کردیا ہے۔ عرب ارکان کا کہنا ہے کہ نئے قانون میں فلسطینیوں کے خلاف پابندیاں عاید کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس قانون کی رو سے فلسطینیوں کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پربھی پابندی لگ سکتی ہے۔