فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وزارت داخلہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کا نام بدستور اس فہرست میں شامل ہے ۔ان کے خلاف انٹرنیشنل ریڈ الرٹ جاری کیا جاچکا ہے۔ایک سکیورٹی ذریعے کا کہنا ہے کہ مصر کا انٹرپول سے مسلسل رابطہ ہے اور اس کے ڈیٹا بیس میں کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ اس کو منسوخ کیا گیا ہے۔
انٹرپول کی اس فہرست میں علامہ یوسف القرضاوی کے علاوہ اخوان المسلمون کے دوسرے لیڈروں کے نام شامل ہیں۔ انھیں مصر کی بعض عدالتیں تشدد ، ہلاکتوں اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات میں سزائیں سنا چکی ہیں۔
اس ذریعے کا کہنا ہے کہ انھوں نے انٹرپول کے فرانس میں واقع ہیڈ کوارٹرز میں ایک بند کمرے کے اجلاس میں شرکت کی ہے اور اس عالمی تنظیم کے حکام سے یوسف القرضاوی کے کیس کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔
اس اجلاس میں اس بات سے اتفاق کیا گیا تھا کہ قاہرہ میں انٹرپول کی جانب سے جاری کردہ بین الاقوامی بلیٹن بدستور برقرار ہے اور اس نے انسانی حقوق کی کمیٹیوں کی جانب سے اس فہرست کو منسوخ کرنے کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔
اس مصری ذریعے نے یہ بھی نشان دہی کی ہے کہ عراق کی درخواست پر انٹرپول نے یوسف القرضاوی کے خلاف کارروائی کے لیے ایک اور بین الاقوامی اعلامیہ جاری کیا ہے۔ان پر لوگوں کو عراق کے سابق وزیراعظم نوری المالکی کے قتل پر اکسانے کا الزام ہے۔
مصری حکام نے انٹرپول سے اس معاملے کی فوری وضاحت کے لیے ایک درخواست بھی کی ہے اور اس عالمی تنظیم سے کہا ہے کہ وہ یوسف القرضاوی کا نام مطلوب افراد کی فہرست میں سے خارج کرنے کی خبروں سے متعلق وضاحت جاری کرے کیونکہ انھیں مصر میں جیلوں پر حملوں کے الزام میں سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔
انٹرپول کی اس فہرست میں وجدی غنیم اور عاصم عبدالماجد کے نام بھی شامل ہیں۔ انھیں بھی دہشت گردی ، تشدد اور قتل کے الزامات میں موت اور عمر قید کی سزائیں سنائی جاچکی ہے۔