ان جنسی ہوس کے بھوکے کتوں نے اپنی ماتحت ملازموں تک کی عزت وناموس کو بھی داغدار کیے بغیر نہ چھوڑا۔
حال ہی میں برطانوی اخبار ‘دی سن‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ برطانیہ کی معروف حکومتی اور سیاسی شخصیات بھی خواتین پر جنسی تشدد کی مرتکب رہی ہیں۔ کئی فرشتہ صفت ارکان پارلیمان بھی اس خطرناک اسکینڈل میں بے نقاب ہوئے ہیں۔
آہستہ آہستہ جنسی تشدد کے اسکینڈل سامنے آ رہے ہیں، لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں خواتین کے جنسی استحصال کے واقعات میں کے منظرعام پرآنے میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
یورپی ملکوں اور امریکی درندہ صفت جنس پرستوں کے اسکینڈلز کے بعد صیہونی ریاست کا بچ رہنا محال ہے کیونکہ صیہونی ریاست اس باب میں پہلے ہی دنیا بھر میں بدنام ہے۔ اسرائیلی سیاست کے کئی بڑے بڑے نام ماضی میں جنسی تشدد جیسے کیسز کا سامنا کر چکے ہیں۔
تازہ رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی ٹیلی ویژن نشریات پیش کرنے والی کمپنی ’کیچ‘ سے وابستہ تین خواتین نے کمپنی کے چیئرمین الیکس گیلاادی پرانہیں جنسی طور پرہراساں کرنے کا الزام عائد کیا۔ مدعیات کا کہنا ہے کہ مسٹر گیلادی نے انہیں سنہ 1970ء سے 1990ء کے دوران جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔
عبرانی اخبار’ہارٹز‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 74 سالہ الیکس گیلادی اسرائیل میں میڈیا پروڈکشن کی سب سے بڑی کمپنی کے سربراہ ہے۔ وہ ماضی میں اولمپک کھیلوں کی عالمی کمیٹی میں بھی مختلف عہدوں پر کام کرچکا ہے۔ اس نے سنہ 1994ء میں قائم ہونے والی عالمی اولمپک کمیٹی کی قیادت کی۔
مغربی ملکوں میں جنسی جرائم کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی مگر جب بڑے بڑے چہروں کے اس گھناؤنے کھیل میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تو کئی ملکوں کے تاج وتخت ہل کر رہ گئے ہیں۔ حتیٰ کہ خواتین کی جبری آبر ریزی اور انہیں بلیک میل کرنے واقعات نے ان ملکوں کے معاشروں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ان بدنام زمانہ لوگوں میں صیہونی ریاست کے کئی اہم عہدیدار اور سیاست دان شامل ہیں۔ ان میں سابق صدر موشے کزاف پر اپنی دو ملازمات پر سنہ 2007ء کے عرصے کے دوران جنسی تشدد کا الزام لگا۔ انہیں اس کی سزا بھگتنا پڑی اور جنسی تشدد کے کیس میں پانچ سال جیل میں رہے۔
سال 2016ء کے آغاز میں اسرائیلی ملٹری پولیس نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ فلسطین میں سنہ 2015ء کے دوران جنسی تشدد کے واقعات میں سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جنسی تشدد کےجرم میں کئیسینیر افسران کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اسرائیلی ریاست کی جانب سے قائم کردہ امدادی مراکز اور کرائسز سیلز کے اعداد و شمار کے مطابق مختلف شعبوں میں ملازمت کرنے والی تین میں سے ایک خاتون کسی نا کسی شکل میں جنسی ہراسانی کا شکارÂ ہو رہی ہے۔ اسی طرح ہرسات میں سے ایک خاتون کے ساتھ زندگی میں جنسی ہراسانی کا واقعہ ضرور پیش آیا اور جنسی ہوس گیری کا شکار ہونے والی چھ میں سے ایک خاتون یا تو جان سے ہاتھ دھو بیھٹی یا وہ معاشرے کا ایک عضو معطل بن کر رہ گئی۔
اسرائیل کے سابق وزرائے اعظم ایہود باراک اور ایہود اولمرٹ بھی خواتین کو جنسی طور پرہراساں کرنے کے اسکینڈل میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔
حتی کہ پارسائی کا دعویٰ کرنے والے کئی یہودی ربی بھی خواتین کی آبر ریزی جیسے سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ کئی ایک کو تو عدالتوں کی جانب سے ایسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہونے پر قید اور بھاری جرمانوں کی سزائیں بھی دی گئیں۔