فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کے ایک کالم نگار ’نیکولا ٹوپول‘ نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر بائیکاٹ تحریک ’بی ڈی ایس‘ نے جو مہم شروع کررکھی ہے اس کے پیچھے بھی ترکوں کا ہاتھ ہے۔ اس کے علاوہ ترک سیاح ’بی ڈی ایس‘ سے بھی اسرائیل کے لیے زیادہ ضرر رساں ہیں۔
اسرائیلی صحافی کا مزید کہنا ہے کہ ان دنوں فلسطینیوں کی سرکردہ شخصیات کا القدس کے قلب میں الشیخ جراح کے مقام پر بہت زیادہ آنا جانا ہے۔ فلسطینی شہری اور سرکردہ شخصیات گذشتہ برس مسجد اقصیٰ کے باہر اسرائیل کے الیکٹرانک گیٹس نصب کرنے کے اقدام کو ناکام بنانے کی یاد میں وہاں جمع ہو رہے ہیں۔ یہ بھی ایک اشتعال انگیزی ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ وہاں پر ترک باشندے بھی آتے ہیں۔ فلسطینیوں کی قیادت مسجد اقصیٰ کے امام اور خطیب الشیخ عکرمہ صبری اور اسلامی تحریک کے امیر الشیخ رائد صلاح کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ الشیخ رائد صلاح کو حال ہی میں اسرائیل کی ایک عدالت کے حکم پر جیل سے رہائی کے بعد گھر پر نظر بند کردیا گیا ہے۔ مگر اسرائیلی تجزیہ نگار کا دعویٰ ہے کہ وہ القدس میں فلسطینیوں کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
صیہونی دانشور پوٹول کا کہنا ہے کہ ترک محکمہ مذہبی امور کے سربراہ محمد گورماز القدس میں آ کر ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے مشنکو آگے بڑھا کر اسرائیل کے خلاف اشتعال انگیزی کو فروغ دیتے ہیں۔ اس لیے ان کی القدس میں داخلے پرÂ مکمل پابندی عائد کی جائے۔
انہوں نے لکھا کہ مسٹر گورماز القدس کے امور میں مداخلت کرتے ہیں اور القدس کو مسلمانوں کا مذہبی مرکز قرار دے کر مسلمانوں کو اس شہر کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس سے اسرائیل کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کو فروغ ملتا ہے۔