رپورٹ کے مطابق جنوبی ترکی میں پہنچنے والے ہزاروں فلسطینیوں نے شکایت کی ہے کہ انہیں زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں ہیں۔ شدید سردی کے موسم میں انہیں برف باری اور بارش کے عالم میں بھی کھلے آسمان تلے رہنا پڑ رہا ہے۔ آگ لگانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ کرائے پرمکان حاصل کرنا اور بھی زیادہ مشکل ہوچکا ہے۔
سب سے زیادہ مشکلات کم عمربچوں، بیماروں، خواتین ور طلباء کو درپیش ہیں۔ شامی حکومت کی جانب سے اسکولوں سے نکالے گئے طلباء کی بڑی تعداد ترکی پہنچ چکی ہے مگر وہاں بھی وہ تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں۔
ترکی میں امن وامان کی بگڑتی صورت حال کے پیش نظر انقرہ حکومت نے بھی پناہ گزینوں کے لیے قوانین مزید سخت کردیے ہیں۔ ترکی نے ملک میں داخل ہونے والے غیرملکیوں کے لیے ویزہ کی شرط لازمی قرار دی ہے۔ شام سے ترکی پہنچنے والے بیشتر افراد اسمگلروں کے ذریعے وہاں پہنچتے ہیں مگر ان کی زندگیاں بدستور خطرات کا شکار ہیں۔
ترکی میں مشکلات میں گھرے فلسطینی پناہ گزینوں نے انسانی حقوق کے عالمی اداروں، امدادی تنظیموں اور عالمی برادری سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ گزینوں کی مدد کریں تاکہ زندگی اور موت میں گھرے فلسطینیوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔
خیال رہے کہ شام میں سنہ 2011 ء کے بعد سے جاری بغاوت کے دوران لاکھوں شہری پڑوسی ملکوں میں پناہ لینے پرمجبور ہوئے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد شام میں مقیم فسطینی پناہ گزینوں کی بھی شامل ہے۔