دوسری جانب فلسطینی انتظامیہ اور اردن کی حکومت نے صہیونی شدت پسند مذہبی لیڈر کے اشتعال انگیز بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلیک فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان مذہبی جنگ کو ہوا دے رہے ہیں۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق یہودا گلیک کا ایک تازہ بیان سخت تنقید کا باعث بنا ہے جس میں اس نے یہودی آباد کاروں پر زور دیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں جب مکبر(قبلہ اول) میں عبادت کی غرض سے جمع ہوں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہودیوں کو فلسطینی نمازیوں پر حملوں پر اکسایا اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوج اور پولیس کو مسجد اقصیٰ میں آنے والے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا اختیار مہیا کریں۔ یہودا گلیک کا کہنا ہے کہ فلسطینی محکمہ اوقاف اور اردن کی نگرانی میں مسجد اقصیٰ کے حفاظتی عملے نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہودیوں کے لیے مسجد اقصیٰ میں عبادت کی ادائی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
یہودا گلیک کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کا جبل مکبر(مسجد اقصیٰ) پر کوئی حق نہیں۔ یہودی اس مقام کے متولی ہیں اور جبل مکبر کی مذہبی سیاست کی ذمہ داری یہودیوں کی ہے۔
خیال رہے کہ یہودی مسجد اقصیٰ یا قبلہ اوّل کے بجائے اسے اپنی مخصوص مذہبی تعلیمات کے تناظر میں ’’جبل مکبر‘‘ قرار دیتے ہیں۔
یہودا گلیک نے صہیونی وزیراعظم پر زور دیا کہ وہ مسجد اقصیٰ کی نگرانی کرنے والے فلسطینی محکمہ اوقاف کے اختیارات محدود کریں اور اس کے بدلے میں فلسطینی پولیس اور فوج کو زیادہ با اختیار بنایا جائے تاکہ وہ مسجد کے حفاظتی عملے اور محکمہ اوقاف کے اہلکاروں کو بیت المقدس اور مسجد سے بے دخل کر سکیں۔
ادھر دوسری جانب فلسطینی محکمہ اوقاف اور اردنی حکومت نے یہودا گلیک کے بیان کو مذہبی اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔ فلسطینی اوقاف ومذہبی امور کا کہنا ہے کہ یہود گلیک فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان مذہبی جنگ کو ہوا دے رہے ہیں۔
اردنی حکومت کی طرف سے بھی یہودا گلیک نے اشتعال انگیز بیان پر سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ عمان حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے گلیک نے اشتعال انگیز بیان پر صہیونی ریاست سے احتجاج کیا ہے۔ اردن کا کہنا ہے کہ انہوں نے تل ابیب حکومت سے رابطہ کرکے ان سے گلیک کے بیان کے بارے میں وضاحت طلب کی ہے۔