رام اللہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے اپنی حکومت کی جانب سے عشروں پرانے اسرائیل ،فلسطینی تنازع کے دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بورس جانسن نے مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ ’’برطانیہ میں ہماری حکومت کی (اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے حل سے متعلق) پالیسی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے‘‘۔انھوں نے کہا کہ ’’ ہم دو ریاستی حل کے بدستور حامی ہیں اور اس تنازعے کے حل کے لیے اس وژن حمایت کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اب بھی یہ ممکن ہے‘‘۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں نئی انتظامیہ ایک موقع کی نمائندہ ہے۔
بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ’’چیزوں کو نئی نظر سے دیکھنے پر آمادگی نظر آتی ہے۔اس کے لیے دونوں جانب ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہوگی جس میں قائدانہ صلاحیتیں ،وژن اور حوصلہ ہو‘‘۔
برطانوی وزیر خارجہ رام اللہ میں فلسطینی صدر محمود عباس اور مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کرنے والے تھے۔ گذشتہ سال جولائی میں وزارت خارجہ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد ان کا مشرق وسطیٰ کا یہ پہلا دورہ ہے۔
واضح رہے کہ امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ماہ اپنے ملک کے دیرینہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے تنازعے کے دوریاستی حل کے بجائے یک ریاستی حل کی تجویز پیش کی ہے۔ انھوں نے گذشتہ ماہ واشنگٹن میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات میں کہا تھا کہ اگر فریقین راضی ہوں اور ان میں امن کی ضمانت ملے تو وہ دو ریاستوں کے بجائے ایک ہی ریاستی پر مبنی حل کی حمایت کریں گے۔
ان کے اس بیان کے بعد انتہا پسند اسرائیلی وزراء بھی تنازعے کے ایک ریاستی حل کی وکالت کررہے ہیں اور وہ فلسطینیوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کی مخالفت کررہے ہیں جبکہ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو پارلیمان الکنیست کے چناؤ کے لیے ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
دریں اثناء اسرائیلی میڈیا نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن فلسطینی علاقوں میں صہیونی آباد کاری کی مخالف غیر سرکاری اسرائیلی تنظیم اب امن کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے اور اس تنظیم کی جانب سے انھیں بریفنگ دی جائے گی لیکن اس کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
بورس جانسن نے رام اللہ میں اپنے بیان میں غربِ اردن میں صہیونی آباد کاری پر تنقید کی ہے لیکن انھوں نے فلسطینی تشدد کی بھی مخالفت کی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’’ اسرائیلی عوام کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ دہشت گردی اور تشدد کے خوف کے بغیر امن و سلامتی سے رہ سکتے ہیں‘‘۔
یاد رہے کہ برطانیہ نے دسمبر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور کردہ ایک قرار داد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔اس قرارداد میں اسرائیل سے فلسطینی علاقوں میں صہیونی آباد کاری کے لیے تعمیرات کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس ووٹ کے بعد اسرائیل اور برطانیہ کے درمیان تعلقات میں سرد مہری آ گئی تھی۔
برطانیہ نے جنوری میں پیرس میں منعقدہ مشرقِ وسطیٰ امن کانفرنس کے حتمی اعلامیے پر دستخط سے انکار کردیا تھا۔اس کانفرنس کی اسرائیل نے شدید مخالفت کی تھی۔اسرائیلی وزیراعظم نے جنوری میں لندن میں اپنی برطانوی ہم منصب تھریسا مے سے ملاقات کی تھی اور اس موقع پر کہا تھا کہ تمام ذمے دار اقوام کو ایران کے خلاف نئی پابندیوں کی حمایت کرنی چاہیے۔