فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی ٹی وی چینل 2 کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ترک صدر نے کہا کہ اگر اسرائیل حماس کی قیدیوں کی رہائی کے لیے پیش کردہ فہرست کو قبول کرنے پرآمادہ ہو تو ترکی حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں تعاون کے لیے تیار ہے۔
انٹرویو کے دوران ترک صدر سے پوچھا گیا کہ غزہ کی پٹی میں حماس کے قبضے میں موجود زندہ اور مردہ فوجیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اسرائیلی زندانوں میں بھی ہزاروں فلسطینی پابند سلاسل ہیں۔ اگر اسرائیل فلسطینی اسیران کی رہائی پر آمادہ ہو تو وہ اس معاملے میں تعاون کے لیے تیار ہیں۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں جب صدر ایردوآن سے کہا گیا کہ آپ حماس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ Â وہ ایک سیاسی تنظیم کیسے ہوسکتی ہے جب کہ اس کے پاس ہزاروں کی تعداد میں راکٹ موجود ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ حماس کو فلسطینی عوام نے منتخب کیا ہے۔ حماس اپنی قوم کے دفاع کی جنگ لڑ رہی ہے۔ حماس کو نظر انداز کرکے کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
اسرائیلی ٹی وی کے نامہ نگار نے پھر کہا کہ حماس تو ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس پرانہوں نے جواب دیا کہ حماس فلسطینی قوم کی نمائندہ جماعت ہے۔ وہ فلسطینی کے مسئلے کے منصفانہ حل کی طالب ہے۔اسرائیل کئی سال کی کوششوں کے باوجود صدر محمود عباس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کر پایا۔ آپ کو فلسطین کی اس قوت کے ساتھ مذاکرات کرنا ہوں گے جنہیں فلسطینی قوم نے اپنا نمائندہ چنا ہے۔
عبرانی ٹی کی جانب سے ترک صدر سے پوچھا گیا کہ کیا آپ غزہ کی پٹی میں اسلحہ لے جانے کی پر پابندی کی ضمانت دے سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں میں پہلے مجھے اس بات کی ضمانت چاہیے کہ اسرائیل غزہ پر جارحیت مسلط نہ کرے۔
ترکی اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ترک صدر نے کہا کہ تل ابیب نے ہماری تمام شرائط مانیں جس کے بعد ہم نے سفارتی تعلقات بحال کیے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے لیے امداد لے جانے والے ترک بحری جہاز مرمرہ پر حملے پر معافی مانگی، متاثرین کو ہرجانہ ادا کیا اور غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس وقت ہم یہ دیکھنا چاہتے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی ختم کرنے کی شرط پرعمل درآمد کررہا ہے یا نہیں۔